خوبصورت ترین قہقہہ (حصہ دوئم)


خوبصورت ترین قہقہہ

خوبصورت ترین قہقہہ (حصہ دوئم)

پہلا حصہ پڑہنے کے لئے یہاں کلک کریں

تحریر:  طارق بلوچ صحرائی

حصہ دوئم  

ماسٹر جی اب میں سوچتا ہوں زندگی اللہ کا انعام ہے ہم دولت کی تمنا اور مادے کی دوڑ میں اُسے قید بامشقت بنا کر گزا دیتے ہیں۔مجھے یاد نہیں میرے بچوں نے مجھے کبھی دن کی روشنی میں دیکھا ہو۔ بچوں سے بھی کبھی کبھی ملاقات ہوتی تھی۔ہم اپنی اپنی زندگیوں میں گُم تھے۔ میرے بیوی بچوں کو صرف میرے پیسے سے غرض تھی میرے پاس وقت نہیں ہوتا تھا اس کمی کو میں پیسوں کی صورت میں پوری کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ بچوں اور بیوی کا مجھ سے کبھی جذباتی لگاؤ نہیں بن سکا۔ اس کا خطا کار بھی میں ہی تھا۔ کیونکہ میں ایک دن بھی بچوں کے ساتھ نہیں کھیلانہ اُن سے ساتھ دوڑ میں جھوٹ موٹ کا مقابلہ کی نہ اُن کے ساتھ قہقہے لگائے نہ بچوں کو اپنی کمر پر سوار کر کے گھوڑا گھوڑا کھیلا نہ کبھی سردیوں کی دھوپ میں اکٹھے بیٹھے۔ نہ بچوں سے کبھی اُن کے سکول اُن کے دوستوں کے متعلق پوچھا نہ کبھی بچوں کو کہانی سناتے سناتے رات کے کھلے آسماں کے تارے دیکھے نہ کبھی اُن کے ساتھ چاند دیکھااور نہ اُن کو چاند پر چرخہ چلاتی بڑھیا کی کہانی سنائی تھی۔ نہ کبھی میں نے اُن کا ماتھا چوما نہ بچوں نے کبھی مجھے اپنی بانہوں کا ہار ڈالا۔


نہ کبھی بیوی کے ساتھ جا کر خریداری کی نہ کبھی باہر کسی ریستوران سے کھانا کھلایا نہ کبھی پہاڑوں اور جنگلوں میں گئے نہ کبھی مور کا رقص دیکھا نہ کوئل کی کوک سُنی نہ کبھی کائنات کو بنانے والے کا گھر دیکھا۔ نہ اُس کے محبوبؐ کا روضہ مبارک وقت کا جیلر مجھ سے سونا چاندی کا بوجھ اُٹھانے اور نوٹوں کی گنتی کروانے جیسی مشقت لیتا رہا۔ میں اُن کیڑوں مکوڑوں کی طرح تھا جو آٹا دانے جمع کرتے رہتے ہیں اور زیادہ ہونے کی وجہ سے پرندوں کے لیے چھوڑ کر واپس چلے جاتے ہیں۔ ماسٹر جی رشتوں کو جو چیز فولاد کرتی ہے وہ ہے وقت۔ احساس اور قربانی میں ترقی کی اس دوڑ میں اپنی مصروفیات کی بناء پر بیوی بچوں کو وقت نہ دے سکا جس کی وجہ سے ان رشتوں میں مضبوطی نہ آ سکی ویسے بھی میری بیوی مجھے غلام بنا کر رکھنا چاہتی تھی۔ ایرانی کہاوت ہے، ’’مرد کا غلام سو سال تک زندہ رہ سکتا ھے جبکہ عورت کا غلام چھ ماہ بھی بمشکل جیتا ھے ۔‘‘

ماسٹر ممتاز علی نے بڑے کرب اور دُکھ سے اسد کی طرف دیکھا اور بولے کبھی سیمی سے بھی رابطہ ہوا، اُس نے آج تک شادی نہیں۔

جی ماسٹر جی!

اُس کا ایک بار خط آیا تھا میں نے اُس کا جواب نہیں دیا تھا وہ خط آج بھی میرے پاس ھے  اُس نے جیب سے وہ خط نکال کر ماسٹر جی کو دے دیا ہم سب نے خط پڑھا لکھا تھا:

تیری دستک کے منتظر مدت سے

دیمک، دروازے، تنہائی اور میں

اے بھولنے والے تو سدا خوش رہے

سوچا تھا خط میں لکھ دوں کہ تمھیں اپنے وجود کی سلطنت سے دل بدر کیا مگر دل ہی بغاوت پر اُتر آیا دل کی جاگیر بھی بڑی عجیب ہوتی ھے ۔ جس کو پہلی بار مل جائے اُسی کے نام رہتی ھے  کسی اور کے نام الاٹ نہیں ہو سکتی۔ آخری پرندہ اُڑ جانے کے بعد بھی نہ جانے کیوں خالی پنجرے میں کوئی ایسی چیز ہوتی ہو جو آزاد نہیں ہوتی۔

محبت مر جائے تو اجل شعور سے نکل کر لاشعور میں داخل ہو جاتی ھے  اور پھر زیست موت سے بھی زیادہ اذیت ناک ہو کر کفنانی ہوئی گلیوں میں پھرتی ہے۔ مشرق کی حوا کا خمیر شاید وفا اور محبت کی قربانی سے اُٹھایا گیا ھے ۔ مہنگی ترین گھڑی پر بھی ایک منٹ ساٹھ سیکنڈ کا ہوتا ھے ۔ تاج محل لوگوں نے دیکھا ھے ممتاز محل نے نہیں کچھ پچھتاوے بڑے جان لیوا ہوتے ہیں۔ میری ریشمی کلائیوں کی چوڑیوں کی قسم زندگی دائروں کے سوا کچھ بھی نہیں ہو سکے تو لوٹ آنا۔

 فقط تمھاری ........     سیمی            


خط پڑھ کر اسد سمیت ہم سب کے آنسو نکل آئے اسد نے اپنی کہانی جاری رکھی ماسٹر جی میرا مکان کبھی گھر نہ بن سکا کہتے ہیں دس انسان مل کر مکان بناتے ہیں۔ مگر ایک عورت اُسے گھر بنا دیتی ھے ۔ جب میں وہ پُر ذِلت والی قید بامشقت والی زندگی چھوڑ کر پاکستان واپس آنا چاہتا تھا تو بیوی بچوں نے صاف انکار کر دیا، بلکہ میری بیوی نے مجھ سے زبردستی طلاق لے لی میرے بچے بھی اُسی کے پاس ہیں اب میں وہیں کھڑا تھا۔ جہاں سے سفر کا آغاز کیا تھا۔ سیمی صحیح کہتی تھی زندگی دائروں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ کہتے ہیں قوموں کی تباہی خاندان کی تباہی سے شروع ہوتی ھے میری زندگی کا قافلہ لٹ گیا مگر میں صر ف بھکاری ہی رہا ، کہتےہیں بھکاری کو ساری دنیا بھی خیرات میں دے دو۔ وہ بھکاری ہی رھےگا اور خواہشات کے گھوڑے پر صرف بھکای ہی سوار ہوتے ہیں۔ ماسٹر جی میں اتنا تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بھی کیوں مار کھا گیا؟

اسد پُتر تعلیم کا مفہوم یہ ہے کہ آپ وہ کچھ جان جائیں جو کتابوں میں نہیں ملتا، ماسٹر جی بولے!

ماسٹر جی جب سے میں گھر آیا ہوں میری ماں سے اپنی خوشی سنبھالی نہیں جاتی ہر لمحہ میرے آگے پیچھے پھرتی ہے۔ میں نہانے جانتا ہوں وہ غسل خانے کے باہر بیٹھی میرا انتظار کر رہی ہوتی ھے ۔ میں سو رہا ہوتا ہوں تو وہ خود جاگ کر میری طرف دیکھ رہی ہوتی ھے ۔ میرے لیے سارا دن مزے مزے کی چیزیں بناتی رہتی ھے ۔ میرے لیے دن رات صدقہ و خیرات کرتی رہتی ھے  کہتی ھے  تیرے جانے کے بعد تیرا باپ بھی بہت پچھتایا تھا۔ میں نے کئی بار راتوں کو اُسے روتے دیکھا ھے  کہتا تھا نیک بخت ہم نے اسد کو باہر بھیج کر اپنا بیٹا گنوا لیا ھے ۔ عید والے کہنے لگی پُتر گاؤں کی عید کتنی خوبصورت ہوتی ھے  ہر گلی ہر محلے میں رقص کرتی ھے ۔ شہروں میں تو تھکی ماندی سوئی رہتی ھے ۔

اللہ کسی کو اولاد کی جدائی کا دُکھ نہ دے اولاد کے فراق میں زندگی ایزا خانوں کی سرد سلوں میں مقید ہو جاتی ھے یہ ایک بڑے قبرستان کا دُکھ ھے  اولاد تو ماں کا فخر ہوتی ھے اُس کے تو اُس دن بھی غرور سے زمین پر پائوں نہیں ٹکتے جب وہ بیٹوں کے کندھوں پر اپنے ابدی گھر جا رہی ہوتی ہیں۔


وہ ہر وقت مجھے سے باتیں کرتی رہتی ھے ۔ اُس نے سیمی کے پاؤں  پکڑ کر اُسے شادی پر راضی کر لیا ھے ۔ اُس نے سیمی سے کہا خود کو سب سے بہترین تحفہ دینا ہے تو دوسروں کو معاف کرنا سیکھیں۔ مجھے کہتی ہیں تم نے سیمی کی آنکھیں دیکھی ہیں کتنی خوبصورت ہیں کہتی ہیں مرد کی آنکھیں دیکھنے کے لیے ہوتی ہیں اور عورت کی دیکھے جانے کے لیے۔ مجھے زندگی میں صرف دولت کے علاوہ پامسٹری سے دلچسپی ہوئی تھی میں نے اپنا زائچہ بھی بنوایا تھا وہ ایک ہندو تھا کہنے لگا، اسی جیون میں تمھارا دوسرا جیون جنم لے گا۔

ماسٹر جی جیون میں دوسرا جیون اس کا کیا مطلب ہے،ماسٹر ممتاز علی مسکرائے اور بولے تمھارا دوسرا جنم تو ہو چکا ہے، فجر کی اذانیں شروع ہو چکی تھیں۔

مجھے بھانجی کی شادی سلسلے میں دوسرے گاؤں  جانا بڑا آج میں ایک ہفتے کے بعد گاؤں  پہنچنے کے بعد سیدھا ماسٹر جی کے ڈیرے پر پہنچا۔ حال احوال پوچھنے کے بعد میں نے اسد عباسی کا پوچھا کہنے لگے روز آتا تھا۔ اب تین دن سے نہیں آ رہا۔ اتنے میں چوہدری نثار عباسی ڈیرے میں داخل ہوئے، سلام دُعا کے بعد ماسٹر ممتاز علی سے بولے:

اُستاد جی اسد کو کیا ہواھے، تین دن سے اپنے کمرے میں بند ھے، روئے جا رہا ھے کہتا ھے  میرے باپ نے مجھے باہر کیوں بھیجا کیا زندگی کو جینا میرا حق نہیں تھا۔ بابا آپ نے مجھ پر بڑا ظلم کیا ھے میری ساری زندگی ضائع کردی ھے۔ اتنی مختصر زندگی کو تو لمحہ لمحہ محبت سے جیاجانا چاہیے تھا۔انسانوں اور خالق کائنات کا حق ادا کرنا چاہیے تھا۔ کبھی کبھی زائچوں کی بھی بات کرتا ھے ہمیں تو بالکل سمجھ نہیں آ رہی اسے کیا ہو گیا ھے۔

ہندو پامسٹ صحیح کہتا تھا اُس کے جیون میں دوبارہ جیون کا جنم ہو گا،ماسٹر ممتاز علی مسکرائے۔

میں سمجھا نہیں ماسٹر جی!

اسد تین پہلے دن میرے پاس آیا تھا کہہ رہا تھا میں نے بے انتہا دولت اکٹھی کی تھی۔ سب کچھ اُن بے فیض بچوں کے لیے چھوڑ کر آ گیا ہوں۔ جو مجھے چھوڑ کر اپنی اپنی دنیا میں گُم ہو چکے ہیں مجھے یہ بھی دُکھ ھے  حصولِ دنیا اور مادے کی اس دوڑ میں مذہب کو میں نے بالکل نظر انداز کئے رکھا میں ایک دن بھی مسجد نہیں گیا کبھی روزے رکھے نہ نماز ادا کی اور نہ ھی کبھی قرآن کھول کر دیکھا۔ میں صرف نام کا مسلمان تھا۔ مگر دوسری طرف مغرب آج بھی میری قابلیت کا معترف ھے،آج بھی دنیا میں مجھ سے اچھا کوئی مائیکرو چپ کا سائنس دان نہیں ماسٹر جی کیا آپ میری زندگی کو کامیاب کہہ سکتے ہیں؟

پھر آپ نے کیا کہا تھا، ماسٹر جی میں نے مضطرب ہو کر پوچھا:

میں نے اُس کو جواب دیا تھا، اسد تیرے باپ سے ایک خطا ہو گئی اُس نے تمھیں ویرانے میں دفن اُس قیمتی خزانے کا نقشہ دیا تھا جس نقشے کی آخری لکیر مٹ چکی تھی سنو!

جو کبھی سچ کی تلاش میں نہیں نکلا سمجھ لو وہ عمر بھر مردوں کے زائچے بناتا رہا ھے اور مردہ شخص کا زائچہ بنانے سے کچھ نہیں ملتا۔

چوہدری نثار نے لمبا اور زور کا قہقہہ لگایا اور نظریں جھکائے واپس چل دیا۔ میں نے حیرانی سے ماسٹر جی کی طرف مسکرا کر دیکھا اور کہا اگرچہ مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی مگر چوہدری نثار کا قہقہہ تھا بڑا خوبصورت ۔

ماسٹر ممتاز علی مسکرائے اور بولے اگر وہ ہنستا نہ تو یقینا رو دیتا شاید تم نہیں جانتے کہ

"دنیا کا سب سے خوبصورت ترین قہقہہ ماتم کرنے والے کا ہوتا ہے"     


Post a Comment

0 Comments