شفیع محمد شاہ 7 ستمبر 1949 کو ضلع نوشہرو فیروز کے شہر
کنڈیارو میں پیدا ہوئے۔ آپ نے مئٹرک اور انٹرمیڈئیٹ تک کی تعلیم کنڈیارو سے حاصل
کی اور حیدرآباد میں ایک پرائیویٹ بئنک میں کلرک کی نوکری حاصل کی اور اس نوکری کے
دوران انہوں نے سندھ یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری بھی حاصل کی۔
حیدرآباد میں رہتے ہوئے 1972 کے دوران شفیع محمد شاہ کی
انور سولنگی سے ملاقات ہوئی جو ان دنوں ریڈیو پاکستان حیدرآباد سے اپنی اداکاری کے
جوہر دکھایا کرتے تھے۔ انہوں نے شفیع محمد شاہ کا آڈیشن لیا اور اس طرح ریڈیو
پاکستان حیدرآباد سے ان کے فنی سفر کا آغاز ہوا۔ بئنک میں نوکری کرتے ہوئے ان کی
کلرک سے مئنجر کی ترقی ہوگئی اور ان کا سانگھڑ ضلع کے شہر جھول میں تبادلہ ہوگیا۔ یہاں
سے بھی انہوں نے ریڈیو پاکستان حیدرآباد پر اپنی پرفارمنس جاری رکھی۔
ریڈیو پر کام کرتے ہوئے شفیع محمد شاہ کی فلم سٹار محمد علی
سے ملاقات ہوئی۔ جنہوں نے ان کو پسند کیا اور انکو لاہور لے گئے اور جہاں پر ان کو فلم کی اداکاری
کے لئے چن لیا گیا۔ اس طرح ان کی پہلی فلم
"بیوی ہو تو ایسی" 1982 میں سئنیمائوں کی رونق بنی۔ اس فلم نے پورے ملک
میں بہت شہرت حاصل کی اور شفیع محمد شاہ کی اداکاری کو بہت سراہا گیا۔ 1986 میں ان
کی دوسری فلم "ایسا بھی ہوتا ہے" اور تیسری فلم "نصیبوں والی"
رلیز ہوئیں جو بھی بہت مقبول ہوئیں۔ اس کے علاوہ "روئے"، اور تلاش فلمیں
بھی ان کی فلوموں میں شامل ہیں۔
فلم انڈسٹری میں شفیع محمد شاہ کی اداکاری کو بیحد پسند کیا
گیا لیکن انہوں نے فلم انڈسٹری کو چھوڑ کر ٹی وی کا رخ کیا۔ اور پروڈیوسر شہزاد
خلیل نے ان کو اپنے ایک ڈرامے " اڑتا آسمان" کے مرکزی کردار کے کاسٹ کیا جو ٹی وی پر ان کا پہلا ڈرامہ تھا۔ ان کو پی
ٹی وی کی دنیا میں ڈرامہ سیریل "تیسرا کنارہ" سے بہت شہرت ملی۔ اس کے
بعد انہوں نے نورالہدا شاہ کے تحریر کردہ ڈرامہ سیریل "جنگل" اپنی
ادکاری کا لوہ منوایا اور اس کے بعد وہ پی ٹی وی کی ضرورت بن گئے۔ 1985 میں شفیع محمد شاہ کی اداکاری کو دیکھتے
ہوئے ان کو پی ٹی وی ایوارڈ اور بعد میں صدارتی
ایوارڈ برائے حسن کاکردگی سے نوازا گیا۔
شفیع محمد شاہ نے صرف ایک ہی سندھی فلم " محب شیدی"
میں 1992 کے دوران کام کیا؛ اور اس کے بعد 1993 میں لاہور جاکر دوبارہ فلموں میں
کام کرنا شروع کیا۔ اس کے بعد 1993 میں "انداز" 1995 میں
"مسکراہٹ" اور ان کی آخری فلم "سلاخیں" جاری ہوئیں۔
شفیع محمد شاہ نے 500 سے زائد اردو اور سندھی ڈراموں میں کام کیا اور جن میں آنچ، تپش، جنگل، محبت خواب کی صورت اور
کئی ڈرامے مشہور ہیں۔
شوبزنس
کے علاوہ شفیع محمد شاہ اپنی
نجی زندگی میں بھی بہت اچھے انسان تھے ان کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ اور خوشی کی
لہر نظر آتی تھی۔ اتنے بڑے اور مقبول سٹار ہونے کے باوجود ان میں کوئی بھی غرور
نہیں تھا۔ وہ نئے آنے والے نوجوانوں کو ہمیشہ سپورٹ اور انکی مدد کرتے تھے۔ قیصرخان نظامانی جیسے کئی نوجوان ادکار ان کے ذریعے متعارف ہوئے۔ اپنے آبائی شہر اور گاؤں کو انہوں نے کبھی بھی
نہیں بھولے اور غمی یا خوشی میں ہمیشہ اپنے آبائی گاؤں جایا کرتے تھے۔ سیاسی طور
پر شفیع محمد شاہ پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھتے تھے اور سن 2020 کے انتخابات کے دوران NA-202، گلشن اقبال، کراچی سے لڑے لیکن
کامیاب نہ ہو سکے۔
لاکھوں
دلوں پہ راج کرنے والے شفیع محمد شاہ
اس فانی دنیا سے 17 نومبر 2007 کو وفات پاکر اپنے مداحوں کو غمگین کر گئے۔ ان کی
اولاد میں ان کی بیٹی علینہ، ارسلانہ، زینب، شہربانو اور بیٹا علی اصغر شامل ہیں۔
16
نومبر 2008 کو شفیع محمد شاہ کی پہلی برسی پر ان کی زندگی اور فنکارانہ کارکردگی پر
نگینہ ہسبانی کی تصنیف کردہ "وہ آدمی تھا یا موتی دانہ" کے عنوان سے ایک
کتاب کی اشاعت کی تقریب کا انعقاد ممتاز مرزا آڈیٹوریم میں سندھ فنکار ویلفیئر ٹرسٹ
کے زیر اہتمام ہوا۔
0 Comments
Please do not enter any spam link in the comments box