حضرت عثمان غنیؓ کے سخاوت کی بہترین مثال


ایک ضرورتمند  ایک اور بندے کے کے پاس آیا اور عرض کی کہ:-

بھائی مجھے تھوڑا سا شہد دے دیں؛ مجھے شدید ضرورت ہے کیونکہ مجھے ایک بیماری ہے اوراس کا علاج شہد سے ممکن ہے۔

 اس بندے نے کہا کہ افسوس ! میرے پاس اس وقت شہد نہیں ہے. آپ کو شہد مل سکتا ہے لیکن اس کے لئے کچھ دور جانا پڑےگا؛ شام ملک سے ایک تاجر کا بڑا تجارتی قافلہ آرہا ہے اور وہ تاجر بہت ہی اچھے انسان ہیں میں امید  کرتا ہوں، وہ آپ کو شہد ضرور دے دیں گے۔

اس ضرورت مند شخص نے ان کا شکریہ ادا کیا اور شہر سے باہر نکل آیا تاکہ قافلے کے ہاں  پہنچ کر تاجر سے شہد کی درخواست کر سکے-

آخر قافلہ نظر آیا اور وہ فورا اٹھہ کر اس کے نزدیک پہنچا اور قافلے کے امیر کے بارے میں پتہ کیا؛ لوگوں نے ایک بارونق اور خوبصورت  چہرے والے شخص کی طرف اشارہ کرکے بتایا کہ وہ ہیں اس  قافلے کے امیر۔ ضرورتمند ان امیرکی خدمت میں حاضر ہو کر بولا: حضرت!  مجھے ایک بیماری لاحق ہے جس کے لیے علاج کے لیے مجھے تھوڑے سے شہد کی ضرورت ہے۔

امیر نے اپنے غلام سے فرمایا کہ جس اونٹ پر شہد کے دو مٹکے لدے ہوئے ہیں، ان میں سے ایک مٹکا اس ضرورتمند بھائی کو دے دو۔

غلام نے یہ سن کر عرض کیا کہ آقا ! اگر ایک مٹکا اس کو دیا تو اونٹ پر وزن برابر نہیں رہیگا۔ یہ سن کر امیر نے فرمایا کہ تو پھر دونوں ہی مٹکے ان کو دے دیں۔

غلام یہ سن کر گھبرا گیا اور عرض کیا کہ آقا! اتنا وزن یہ کیسے اٹھائے گا۔ اس پر آقا نے  فرمایا کہ پھر اونٹ بھی اس کو دے دو۔ غلام فوراً دوڑا اور اونٹ مٹکوں کے ساتھہ ہی اس کے حوالے کردیا۔ ضرورتمند امیر کا شکریہ ادا کرکے اونٹ کی رسی تھام کر چلا گیا۔

ضرورتمند شخص دل سے بے تحاشہ دعائیں بھی دے رہا تھا اور سوچ بھی رہا تھا کہ یہ شخص کس قدر سخی ہے! میں نے ان سے تھوڑا سا شہد مانگا تھا اور انہوں نے مجھے دو مٹکے دے اونٹ کے ساتھ  دے دیے۔

اِدھر غلام آقا کی خدمت میں حاضر ہوا تو آقا نے غلام سے فرمایا کہ جب میں نے تم سے کہا کہ اس کو ایک مٹکا دے دو تو تم نہیں گئے، دوسرا مٹکا دینے کو  کہا تو پھر بھی نہیں گئے  لیکن جب میں نے جب اونٹ کا بھی کہا تو تم دوڑتے ہوئے چلے گئے! اس کی کیا وجہ تھی؟

غلام نے عرض کیا کہ آقا جب میں نے یہ کہا کہ ایک مٹکا دینے سے اونٹ پر وزن برابر نہیں رہے گا تو آپ نے دوسرا مٹکا بھی دینے کا حکم فرمایا، جب میں نے یہ کہا کہ وہ دونوں مٹکے کیسے اٹھائے گا تو آپ نے فرمایا: اونٹ بھی اسے دے دو۔ اب میں ڈر گیا کہ  اگر میں نے اب کوئی اعتراض اٹھایا تو آپ مجھے بھی اس کے ساتھ جانے کا حکم فرما دیں گے۔ اس لیے میں نے دوڑ کر اس کو اونٹ سمیت شہد کے دو مٹکے دے دیے۔

اس پر آقا نے کہا: اگر تم اس کے ساتھ چلے جاتے تو اس غلامی سے آزاد ہو جاتے ۔ یہ تو اور اچھا ہوتا؟

جواب میں غلام نے کہا: آقا! میں آزادی نہیں چاہتا، اس لیے کہ آپ کو تو مجھ جیسے سینکڑوں غلام مل جائیں گے، لیکن مجھے آپ جیسا آقا نہیں ملےگا ۔ میں آپ کی غلامی میں رہنے کو آزادی سے زیادہ پسند کرتا ہوں۔

آپ کو معلوم ہے ۔ یہ آقا کون تھے ۔ یہ حضرت عثمان غنیؓ تھے۔ سبحان اللہ


Post a Comment

0 Comments