Sakrand City, Sindh, In backdrop of History

sakrand-city-sindh

 

سکرنڈ (Sakrand) شہر صوبہ سندھ کا ایک شہر ہے۔ یہ ضلع شہید بنظیرآباد کا تعلقہ بھی ہے۔ یہ شہر قومی شاہراہ کے دونوں اطرف آباد ہے اور شہید بینظیرآباد (نوابشاہ) سے 18 کلومیٹر دور جنوب شمال کی جانب ہے۔ شہر کے مغرب میں تقریبا 18 کلومیٹر دور دریائے سندھ واقع ہے۔  سن 1912ء سے پہلے جب نوابشاہ نے ضلع کی حثیت حاصل نہین کی تھی تو اس وقت بھی سکرنڈ تعلقہ کی حثیت رکھتے ہوئے حیدرآباد ضلع کا حصہ تھا۔

سکرنڈ کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ شہر کلہوڑوں اور تالپروں کے دور میں بڑی اہمیت کا حامل تھا۔ 1782 میں تالپر خاندان کے حاکم میر فتح علی خان تالپر نے جب ہالانی کے میدان پر کلہوڑوں کے آخری حاکم میاں عبدالغنی خان کو شکست دے کر تالپروں کی حکومت قائم کی تھی؛ اس وقت یہ شہر تالپروں کے زیر آیا۔ اس کے بعد ایک مرتبہ جب میر فتح علی تالپر شکار کرنے کی غرض سے سکرنڈ شہر کے جنوب میں موجود جھیل کے ساتھ اپنا کیمپ لگایا۔ میر صاحب علاقے کے آسپاس کے خوبصورت مناظر دیکھ کر بہت متاثر ہوئے، جس وجہ سے انہوں نے جھیل کے کنارے کے ساتھ ایک محل تعمیر کراویا اور ساتھ ایک قلعہ بھی بنوایا۔ اس کے ساتھ جھیل کے متصل علاقوں کو ملا کر ایک شہر آباد کیا، جس کا نام فتح آباد رکھا۔ اس کے بعد میر صاحب کے تین بھائی میر غلام علی، میر کرم علی اور میر مراد علی خان وقتافوقتا اس قلعہ میں آیا کرتے تھے۔  اس کے بعد سکرنڈ کے مشہور مصنف میر عظیم الدین ٹھٹوی  نے اس جھیل کے دلکش نظاروں اور جھیل کے میٹھے پانی سے متاثر ہوکر اس جھیل کو شکر ڈھنڈ نام دیا جس کا مطلب ہے میٹھے پانی والی جھیل ۔  اس طرح وقت گذرنے کے ساتھ یہ نام بگڑتے ہوئے سکرنڈ بن گیا۔

سن 1843ء میں جب انگریزوں نے سندھ کو فتح کیا تو سر چارلس نیپیئر نے صوبہ کو انتظامی لحاظ سے تین اہم ضلعوں یعنی کراچی، حیدرآباد اور شکارپور میں تقسیم کیا۔ اس انتظامی تقسیم کے تحت حیدرآباد ضلع کو بدین سے کنڈیارو (نوشہرو فیروز)  تک کا علاقہ دیا گیا۔ اس تقسیم کے تحت 1855ء کے دوران سکرنڈ کو تعلقہ کا درجہ دے کر اس کے آسپاس کے علاقے سکرنڈ تعلقہ کے زیر انتنظام کر لیے گئے۔ پرانہ تعلقہ آفس کے دروزے کے اوپر نسب تختی اس بات کی گواہی دیتی ہے؛ کیوں کہ اس  کی تختی کے اوپر یہ ہی سن لکھا ہوا ہے۔ اور تعلقہ کی آفس میں اس سن کے رکارڈ بھی مل رہے ہیں جس میں اس وقت بھی اس شہر کا نام سکرنڈ ہی دیا گیا یے۔

دریا اور مرکزی شاہراہ کے ساتھ ہونے کی وجہ سے شروع سے ہی یہ شہر کاروباری لحاظ سے بڑی اہمیت کا حامل رہا ہے جس کی وجہ سے انگریز سرکار نے 1932ء کے دوران اس شہر کو دوسرے شہروں سے ملانے کے لئے ریلوے کا نظام بحال کرکے سکرنڈ شہر میں ریلوے سٹیشن قائم کیا۔ اور علاقہ مکینوں کی سہولت کی خاطر نوابشاہ اور سکرنڈ کے درمیاں دن میں تین مرتبہ ٹرین آتی جاتی تھی۔  اس کے بعد اس شہر کی اہمیت کو مدنظر رکھتے  ہوئے عوام کی سہولت کے لئے سکرنڈ شہر کے شمال مغرب میں ریلوے لائن بچھا کر سکرنڈ کے ریلوے ٹریک کو ٹھاروشاہ اور پڈعیدن جنکشن  (نوشہروفیروز)  سے ملاکر،  1939ء میں سکرنڈ کے ریلوے سٹیشن کو جنکشن کا درجہ دیا گیا۔  اور ساتھ ہی سکرنڈ شہر کی مغرب سے ریلوے ٹریک بچھا کر ٹنڈوآدم جنکشن کو بھی ملایا گیا۔ لیکن پاکستانی حکمرانوں نے چھوٹے شہروں کی طرف توجہ  دینا چھوڑ دیا اور آہستہ آہستہ کر کے 1 جولائی 1992 سے نوابشاہ جنکشن سے چھوٹے شہروں کے لئے نکلنے والی تمام ریل گاڑیوں کو بند کردیا گیا۔

انگریزوں کے دور میں مقامی حکومت کا آغاز کرتے ہوئے جب سینیٹری کمیٹیز، نوٹیفائیڈ کمیٹز اور میونسپلٹیز کی بنیادیں رکھی گئیں تو سکرنڈ شہر میں آبادی کے لحاظ سے سینیٹری کمیٹی قائم کی گئی۔ اس کے بعد شہر کی آبادی بڑہنے کی وجہ سے یونائیٹیڈ کمیٹی کی سطح پر ترقی دی گئی۔  آزادی کے بعد صدر ایوب خان کے دور یونائیٹیڈ کمیٹی تک قائم رہی اور اس کے بعد ٹاؤن کمیٹی میں تبدیل ہوگئی۔ 

اس وقت سکرنڈ تعلقہ ضلع شہید بینظیرآباد کا حصہ ہے اور تجارتی لحاظ سے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اس تعلقہ کی زمین اور آہہوا نہایت ئی موزون ہونے کی وجہ سے یہ تعلقہ پاکستان اور صوبہ سندھ کی زرعی معیشت کو اہم حصہ فراہم کرتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ تعلقہ صنعتی اہمیت کا بھی حامل ہے۔ یہاں پر سکرنڈ شوگر مل قائم یے جس کی ایک دن 6500 ٹن گنہ نکالنے کی صلاحیت ہے۔  یہ مل نہ صرف اپنے تعلقہ کے لئے چینی کی ضروریات پوری کرتی ہے بلکہ دوسرے شہروں کو بھی اس مل سے برآمد کی جاتی ہے۔

سکرنڈ میں کئی پرائمری، سیکینڈری اور ہائر ایجوکیشن انسٹیٹیوٹ ہیں جن سے سکرنڈ کے لوگ تعلیم لے کر قوم اور ملک کی خدمت کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ صابق صدر آصف علی زرداری نے سن 2012ء میں شہید بینظیر بھٹو ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز یونیورسٹی قائم کی ہے جس کی وجہ سے علاقے کو ایک پہچان ملی ہے، اور اس کے علاوہ اس تعلیمی ادارے سے صوبہ کے دوسرے شہروں سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

Post a Comment

0 Comments