یزید بن معاویہ، بنو امیہ خاندان کا دوسرا خلیفہ
تھا. معاویہ بن ابوسفیان کے بعد اس نے حکومت سنبھالی۔ اس کی حکومت کے دوران دمشق
حکومت کا دارالخلافہ تھا۔ معاویہ بن ابو سفیان نے اپنے بیٹے یزید بن معاویہ کو
خلیفہ نامزد کر کے خلافت کے موروثی ہونے کا بیج بویا کیونکہ پہلے کسی بھی اسلامی
خلیفہ نے خلافت اپنی اولاد کے حوالے نہیں کی۔
یزید بن معاویہ کے بدترین اور سیاہ ترین واقعات
میں سے واقعہ کربلا ہے اور اسلامی تاریخ میں اس سے زیادہ غم انگیز واقعہ نہیں ہوا
ہے۔ اسی ملعون کے دور میں خانہ کعبہ کو مسمار اور نذر آتش بھی کیا گیا تھا؛ مسجدِ
نبوی میں گھوڑوں کو باندھا گیا اور مدینہ منورہ کی کنواری لڑکیوں کے ساتھ زنا کیا
گیا.
ہزاروں صحابہ کرام کو شهید کیا گیا.
واقعہ کربلا کے کچھ دنوں بعد
یزید ایک انتہائی موذی مرض میں مبتلا ہوا؛ جس کے سبب
اس
ملعون کو پیٹ میں پیٹ کے درد اور آنتوں کے زخموں کی ٹیس سے ایسے تڑپتا رہتا تھا
جیسے مچھلی پانی کے بغیر تڑپتی ہے۔ حمص میں جب اس کو اپنی موت کا یقین ہوگیا تو
اپنے بڑے بیٹے کو بستر مرگ پر بلایا اور امور سلطنت سے متعلق اسے کچھ کہنا ہی
چاہتا تھا کہ معاویہ بن یزید سے بے ساختہ چیخ نکلی اور نہایت ذلت و حقارت کے ساتھ
یہ کہہ کرباپ کی پیشکش کو ٹھکرا دیا کہ "جس تاج و تخت پر آل رسول ﷺ کے خون کے دھبے ہیں،
میں اسکو کسی بھی صورت قبول نہیں کرسکتا؛ اللہ مجھے ایسی منحوس خلافت کی حکومت سے محروم
رکھے، جس کی بنیاد رسول اللہ ﷺ کے نواسے کے خون پر رکھی
گئی ہے."
یزید اپنے بیٹے کی بات سن کر وہ تڑپ اٹھا اور شدت
رنج والم سے بستر پر پاؤں مارنےلگا، موت سے کچھ دن پہلے یزید کی آنتیں سڑ گئیں تھیں
اور اُس میں کیڑے پڑ گئے تھے، تکلیف کی شدت سے خنزیر کی طرح چیخیں مارتا رہتا تھا،
پانی کا قطرہ حلق سے نیچے اترنے کے بعد نشتر کی طرح چبھنے لگتا تھا۔ اس پر اللہ
تعالیٰ کا عجیب قہر تھا کہ پانی کے بغیر بھی تڑپتا تھا اور پانی پاکر بھی چیختا
تھا، بالآخر اسی درد کی شدت سے تڑپ تڑپ کر اُس کی موت ہوئی اور لاش میں ایسی
ہولناک بدبُو ہو گئی تھی کہ قریب جانا مشکل تھا اور جیسے تیسے اس ملعون کو سفن کیا
گیا.
(تاریخ کربلا، ص345)
ایک روایت میں یزید کی موت کا یہ سبب بھی بتایا گیا
ہے کہ وہ ایک رومی النَّسل لڑکی کی عشق میں مبتلا ہو گیا تھا لیکن اس لڑکی نے دل میں
یزید کے لئے نفرت پالی ہوئی تھی اور ایک دن رنگ رلیاں منانے کے بہانے اس لڑکی نے
یزید کو ویرانے میں تنہا بلایا اور اس ویرانے کی ٹھنڈی موسم نے یزید کو بدمست
کردیا۔ لیکن اس لڑکی نے یہ کہتے ہوئے کہ اس ملعون پر خنجر سے وار کئے کہ جو بے
غیرت و نابکار اپنے نبی کے نواسے کا غدار ہو وہ میرا وفادار کیسے ہو سکتا ہے، اس
لڑکی نے یزید پر خنجر کے پے در پے وار کیے اور اس کو چیر پھاڑ کر وہیں اس کی لاش کو
چیل کوّوں کی دعوت کے لئے پھینک دیا۔. بالآخِر ڈھونڈتے ہوئے اُس کے اَہالی مَوالی
وہاں پہنچے اور گڑھا کھود کر اُس کی سڑی ہوئی لاش کو وہیں داب آئے۔ (اوراقِ غم، ص550)
(امام
حسینؑ کی کرامات، ص47)
ایک شامی شخص نے یزید کی موت کے بارے میں لکھا ہے: ایک دن یزید اپنے بندر کو وحشی
خچر کی پشت پر بٹھا کر
اس کو دوڑایا اور خود بھی مستی اور مدہوشی کی حالت میں گھوڑے پر بیٹھہ کر اس خچر
کے پیچھے دوڑنا شروع کر دیا۔ اچانک زمین
پر گرا جس وجہ سے اس کی گردن ٹوٹ گئی اور اس دن سے یزید ملعون کھڑا نہیں ہو سکا۔ (حوالہ
ابن کثیر، 436 /8) ابن عباس سے منقو ل ہے کہ انہوں نے کہا: یزید حوارین میں مستی
کی حالت میں شکار کی غرض سے گھوڑے پر بیٹھا اور اس کے آگے وہ وحشی خچر دوڑ رہی
تھی جس پر بندر بیٹھا ہوا تھا، اس کے پیچھے یزید نے اپنے گھوڑے کو دوڑایا، اور یہ
شعر پڑھا:
ابا خلف! احتل لنفسک حیلہ
فلیس علیھا ان ھلکت ضمان.
یہ شعر کہتے ہی یزید اپنے گھوڑے سے گرا اور اس
کی گردن ٹوٹ گئی اور اس کے بعد وہ اٹھ نہ پایا۔ ( حوالہ انساب الاشراف/4/ق2/1)
یزید صِرف تین برس چھ ماہ تخت شرارت وخباثت کر
کے 14 ربیع الاول 64 ھجری کو شام ملک کے شہر
حمص کے علاقے حوارین میں 39 سال کی عمر میں مر گیا۔ (حوالہ الکامل فی التاریخ، ج3،
ص464۔ دارالکتب العلمیة بیروت(۔ اس ملعون کی قبر دمشق میں آج بھی نشان عبرت
بنی ہوئی ہے۔
0 Comments
Please do not enter any spam link in the comments box