Sanghar District; History since Origin and Statistics

 

Sanghar District; History since Origin and Statistics

سانگھڑ ضلعہ صوبہ سندھ کے سب سے بڑے اضلاع میں سے ایک ہے؛ جس کا رقبہ 9874 مربع کیلومیٹر ہے۔ یہ ضلعہ سندھ کے وسط میں واقع ہندوستان کے ساتھ مشرق میں جڑا ہوا ہے۔  ضلعے کا ہیڈ کواٹر سانگھڑ شہر میں واقع ہے جس کے مشرق – جنوب میں تقریبا 35 میل (56 کلومیٹر) نواب شاہ  شہر اور اتنے ہی  فاصلے پر شمال میں میر پور خاص شہر ہیں۔ اس کے مغرب میں ٹنڈوالہیار اور مٹیاری اضلاع واقع ہیں۔ اس ضلع کو انتظامی طور پر چھ تعلقوں (سانگھڑ، جام نواز علی، کھپرو، شہدادپور، سنجھورو، ٹنڈو آدم خان) میں تقسیم کیا گیا ہے۔ سانگھڑ ضلعے کی بنیادی صنعت زراعت ہے۔

کچھ روایتوں کے مطابق سانگھڑ شہر کا نام ایک متقی ماہی گیر خاتون "مائی سنگھار" کے نام پر رکھا گیا تھا۔ یہ شہر پہلے ایک چھوٹا سا گاؤں ہوتا تھا اور ایک صدی سے زیادہ عرصے ایک چھوٹا سا گاؤں ہی رہا جس کی آبادی چند سیکڑوں افراد پر مشتمل رہی۔ لیکن 18 ویں صدی سے آباد ہونا شروع ہوا۔

سن 1853 میں چارلس نیپئر کے حملے کے بعد سندھ کو ریاستوں میں تقسیم کردیا گیا اور ان ریاستوں کو انگریزوں کے لئے ٹیکس جمع کرنے کے لئے زمینداروں کے حوالے کردیا گیا تھا۔ بعد ازاں سندھ کو برطانوی ہندوستان کے بمبئی کی حکومت کے زیر کیا گیا لیکن 1935 کے دوران سندھ کے مسلمان لیڈروں کی کوششوں سے سندھ کو ایک الگ صوبہ بنا دیا گیا۔ اس عرصے کے دوران سانگھڑ نے انتظامی  طور پر تعلقہ کی حیثیت حاصل کی اور اسے متبادل طور پر نواب شاہ اور تھرپارکر کے اضلاع میں شامل کیا گیا۔ بعدازاں سانگھڑ تعلقہ کو 1954 میں ضلعے کا درجہ دے کر اس کا دسٹرک ہیڈ کوارٹر سانگھڑ شہر میں قائم کیا گیا۔

سانگھڑ ضلعے کو ہر مجاہدوں کے ضلعے سے بھی پہچانا جاتا ہے، یہ ہر مجاہد سید شاہ مردان شاہ ثانی کے پیروکار ہیں اور انہوں نے صبغت اللہ شاہ راشدی کی کمان میں برطانوی حکومت کے خلاف بھی لڑائی کی۔

اس ضلع کے عوام، خاص طور پر حروں نے پاکستان کی آزادی میں اہم کردار ادا کیا۔ پیر سبغت اللہ شاہ (پیر پگاڑا) کی سربراہی میں ایک منظم فوجی باغی گروپ تھا جو پیر پگاڑا کے نام سے مشہور تھا۔ انہوں نے برطانوی راج سے آزادی کا مطالبہ کیا اور آزادی کے لئے حروں کی فوج نے برطانوی فوج کے خلاف گوریلا جنگیں لڑیں اور برطانوی راج کے شانہ بشانہ رہ کر ہمیشہ ہی ایک کانٹے کی طرح چبھتے رہی۔ تاریخ میں لکھا جاتا ہے کہ حروں کی جنگ ہندوستان میں برطانوی راج کے تابوت میں ایک اہم کیل کے مثل تھی۔

بزرگوں کے مطابق، رومانوی داستانوں کے مشہور  ہیروز سوہنی مہیوال کی لاشیں سانگھڑ ضلعے کے ایک شہر  شہداد پور کے نزدیک سندھوندی  سے ملی تھیں اور سوہنی کا مقبرہ  آج بھی شہداد پور میں واقع ہے، جو سانگھڑ شہر سے 40 کلومیٹر (25 میل) اور حیدرآباد سے 75 کلومیٹر (47 میل) دور ہے۔

2017 کی مردمشماری کے مطابق سانگھڑ ضلع کی آبادی 2,057,057 ہے جس میں آبادی کا ٪72 حصہ دیہی علائقوں پر مشتمل ہے اور ٪18 حصہ شہری آبادی پر مشتمل ہے۔

اس ضلع کے زمین کی مٹی دو حصوں میں تقسیم ہوتی ہے۔ کا مغربی حصہ (جام نواز علی، شہدادپور، سنجھورو، ٹنڈو آدم اور کھپرو کا کچھ حصہ) ذرخیز ہے اور اس حصے کو کینالوں کے ذریعے پانی بھی میسر ہوتا ہے۔ ضلع کا مشرقی حصہ صحرا پر مشتمل ہے جس کو اچھڑو تھر (سفدید صحرا) کہا جاتا ہے۔ صحرا کا یہ حصہ کھپرو تعلقہ میں واقع ہے جوکہ ضلع گھوٹکی سے جاکے ملتا ہے۔  ضلع کی ٪72 آبادی سندھی زبان بولتی ہے۔ اس کے علاوہ پنجابی (٪15) اردو (٪5) بولنے والے بھی سانگھڑ ضلع میں آباد ہیں۔ ضلع کی (٪79) آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے؛ اس کے علاوہ ضلع میں ٪20 ہندو اور ٪0.49 کرسچن بھی رہتے ہیں۔

سانگھڑ ضلع میں کئی سیاسی جماعتیں متحرک ہیں لیکن پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) کا ضلع میں گڑہ ہے۔ صوبے میں ایک قومی اسمبلی کی اور تین صوبائی اسمبلی کی نشستیں ہیں۔

Post a Comment

0 Comments