Mir Murtaza Bhutto

 

Mir Murtaza Bhutto

میر غلام مرتضیٰ بھٹو (Mir Ghulam Murtaza Bhutto) ولد ذوالفقار علی بھٹو(Zulfiqar Ali Bhutto)  18 ستمبر 1954 کو گڑہی خدا بخش، ضلع لاڑکانہ  (Larkana)میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم سینٹ میریز اکیڈمی کراچی  (Karachi) سے حاصل کی اور 1972 میں کراچی گرامر سکول سے O Level  کا امتحان پاس کرنے کے بعد 1972 میں انکو ہارورڈ یونیورسٹی سے  بیچلر ڈگری حاصل کرنے کیلئےامریکہ بھیجا گیا۔ بیچلر ڈگری حاصل کرنے کے بعد مرتضیٰ بھٹو نے نے تین سالہ ماسٹر آف لیٹرز (ایم لِٹ) ڈگری کورس کے لئے اپنے والد کے الماٹر کرائسٹ چرچ آکسفورڈ میں شرکت کی؛ جہاں انہوں نے اپنا ماسٹر مقالہ پیش کیا، جس میں نیوکلیئر اسٹریٹجک مطالعات پر ایک وسیع تر دلائل دئے، جہاں انہوں نے ہندوستان کے جوہری پروگرام کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے جوہری روک تھام کے پروگرام کی تیاری کے پاکستان کے حق کی حمایت کی۔

یوروپ میں اپنی پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کرنے کے دوران، مرتضیٰ بھٹو کی بہن بینظیر بھٹو (Benazir Bhutto) نے جنرل ضیاء الحق کی سربراہی میں بغاوت کے بارے میں انکو مطلع کیا اور وہ اپنے بہن بھائیوں سمیت فوری طور پر پاکستان واپس آگئے۔ تاہم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے بچوں کو کم سے کم وقت میں ملک چھوڑنے کا مشورہ دیا تھا۔ مرتضیٰ راستے میں تھے کہ انہیں اپنے والد کی طرف سے ایک پیغام موصول ہوا کہ وہ بیرون ملک ہی رہیں جہاں وہ انکی رہائی کے لئے بین الاقوامی مہم چلا سکتے ہیں۔

5 جولائی 1977 کو ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے تک مرتضیٰ بھٹو اپنے کنبہ کے دیگر افراد کے ساتھ  پاکستان میں ہی تھے اور اکتوبر 1977 میں ہونے والے انتخابات کی تیاریوں میں لاڑکانہ میں مصروف عمل تھے۔ 16 ستمبر 1977 کو جب ذوالفقار علی بھٹو کو المرتضیٰ ہاؤس میں گرفتار کیا گیا تو انہوں نے اپنے بیٹے کو ملک چھوڑنے کو کہا۔

ذوالفقارعلی بھٹو کی سزا سنائے جانے کے بعد مرتضیٰ بھٹو نے اپنے بھائی شاہنواز بھٹو سے مل کر اپنے والد کے سر پر پڑی سزائے موت کو منسوخ کرنے کے لئے بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے کے لئے مہم شروع کی۔ اس مہم میں شام، لیبیا  اور دیگر ممالک کے رہنما خاص طور پر معاون تھے اور کئی سربراہان مملکت کی طرف سے رحم کی اپیلیں جنرل ضیاء الحق کو بھیجیں گئی؛ لیکن تمام اپیلوں کو نظرانداز کردیا گیا اور ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ اس کے بعد دونوں بھائیوں نے اپنے تعلیمی سرگرمیوں کو مختصر کرکے اپنے والد کی موت کا بدلہ لینے کے لئے خود کو وقف کرنے کا فیصلہ کرکے انہوں نے ہتھیار اٹھا لیے اور ان کا اصل ہدف جنرل ضیاء الحق تھا۔ اس نئے فیصلے نے مرتضیٰ بھٹو کی زندگی میں ایک نئے اور متنازعہ عہد کا آغاز کیا جس کے نتیجے میں انہوں نے نے الذوالفقار تنظیم کی بنیاد رکھی۔ 

الذوالفقار تنظیم نے مارچ 1981 میں کراچی سے پشاور جانے والے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن کے ایک طیارہ ہائی جیک کر کے اسے کابل کی طرف موڑ دیا جہاں سے اس طیارے کو دمشق کو بھیجا گیا۔ یہ ہائی جیکنگ تیرہ دن تک جاری رہی جس کے دوران طیارے میں موجود میجر طارق رحیم نامی مسافر کو ایک آرمی آفیسر ہونے کی وجہ سے گولی مار دی گئی۔ اس کے بعد ضیاء حکومت کو ہائی جیکرز کے مطالبات ماننے پڑے اور پاکستانی جیلوں میں قید درجنوں قیدیوں کو رہا کرکے انہیں طرابلس بھیجنا پڑا۔ اس کامیاب ہائی جیکنگ نے نہ صرف رہائی پانے والے بہت سارے افراد کو الذوالفقار تنظیم میں شامل کیا، بلکہ کابل آنے والے دوسرے ہامیوں کو اپنی تنظیم میں شامل کیا گیا۔ 1981 میں، الذوالفقار تنظیم نے پنجاب کے مشہور سیاستدان چوہدری ظہور الٰہی کے قتل اور طیارے کے ہائی جیکنگ کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ جس پر افغانستان میں جلاوطنی کے دوران، مرتضیٰ بھٹو کو فوجی ٹریبونل نے انکی غیر حاضری میں سزائے موت سنائی۔

مرتضیٰ بھٹو نے افغانستان میں رہتے ہوئے 1980 میں فوزیہ فصیح الدین نامی ایک لڑکی سے پسند کی شادی کی تھی اور اس کے بھائی شاہنواز بھٹو نے بھی اس لڑکی کی بہن ریحانہ فصیح الدین سے پسند کی شادی کی تھی۔  مرتضیٰ بھٹو کو فوزیہ فصیح الدین سے ایک بیٹی (فاطمہ بھٹو) بھی ہوئی۔ تاہم مرتضیٰ اپنی اس بیوی کو طلاق دیکر اپنی بیٹی کے ساتھ شام چلے گئے، جہاں انہوں نے 1989 میں غنوا نمی ایک لبنانی لڑکی سے شادی کی اور اس کے بعد اپنی اہلیہ اور بیٹی فاطمہ کے ساتھ 1990 میں کراچی میں منتقل ہوگئے، جہاں انکو ایک بیٹا ذوالفقار علی بھٹو جونیئر پیدا ہوا۔

وہ پھر 1993 میں پاکستان واپس آئے جب انکی بہن بینظیر بھٹو ملک کی وزیراعظم تھی۔ انکے حکم پر دہشتگردی کے الزام میں مرتضیٰ بھٹو کا گرفتار کیا گیا؛ لیکن انکو بعد میں ضمانت پر رہا کیا گیا۔ جس کے بعد مرتضیٰ بھٹو صوبائی اسمبلی میں کامیابی کے ساتھ الیکشن لڑکر سندھ اسمبلی کے ممبر بنے۔ مرتضیٰ بھٹو کے اس عرصے کے دوران انکی اپنی بہن اور انکے شوہر آصف علی زرداری کے ساتھ بہت سے اختلافات رہے۔

20 ستمبر 1996 کی شام 6 بجکر 5 منٹ پر مرتضیٰ  بھٹو کو پارٹی کے دیگر چھ کارکنوں سمیت انکی رہائش گاہ کے قریب پولیس مقابلے میں مارا گیا۔ ہلاک ہونے دیگر ساتھیوں میں پاکستان پیپلز پارٹی (شہید بھٹو گروپ) کے قائم مقام صوبائی چیف عاشق جتوئی اور سابق وزیراعظم غلام مصطفی جتوئی کے بہنوئی بھی شامل ہیں۔ 22 ستمبر 1996 کو  ان کی میت کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے گڑھی خدا بخش، ضلع لاڑکانہ تدفین کے لئے لایا گیا۔ ہیلی کاپٹر کے پائلٹ کے مطابق میت کی منتقلی دوران پائلٹ کو ہیلی کاپٹر اٹھانے میں کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ کراچی کے علاقے لیاری سے بھٹو کے متعدد حامی طیارے سے لپٹ گئے اور ہیلی کاپٹر کے اڑتے ہی سارے حامی طیارے کے ساتھ لپٹے نیچے گر گئے۔ تاہم ایک آدمی ہیلی کاپٹر سے لپٹا رہا جس کی وجہ سے ہیلی کاپٹر کو سمندر کی طرف موڑ کر باغ ابن قاسم پر اتارنا پڑا جہاں ہیلی کاپٹرسے لپٹا ہوا وہ نوجوان نیچے گر گیا اور دوبارہ ہیلی کاپٹر کو گڑھی خدا بخش، ضلع لاڑکانہ کی طرف اڑایا گیا۔


Post a Comment

0 Comments