خلیفہ چہارم داماد رسول، شوہر بتول، شیر خدا، سیدنا علی کرم اللہ وجہ
نام مبارک: علی، کنیت: ابوالحسن ،ابوتراب۔ لقب: حیدر ومرتضیٰ۔
والد کانام: ابو طالب۔ والدہ کانام: فاطمہ بنت اسد۔
سلسلہ نسب: علی بن ابی طالب بن عبد المطلب بن ہاشم
بن بن عبد مناف بن بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی القرشی ہاشمی۔
تاریخ پیدائش: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: صحیح قول کے مطابق آپ کی ولادت بعثت
نبوی سے دس برس قبل ہوئی ۔
(الاصابۃ ج:۲،ص:۱۲۹۴)- روافض نے بھی یہی لکھا پیدائش واقعہ فیل کے ۳۰/سال بعد اور ہجرت سے ۲۵/یا۲۳/سال پہلے مکہ مکرمہ میں ہوئی۔{نورالابصار،ص:۸۵]۔
قبول اسلام:
آپ کے والد جناب
ابو طالب اپنے دوسرے بھائیوں کی طرح خوشحال نہ تھے ،مکہ کے مشہور قحط کی وجہ سے ان
کی مالی حالت اور زیادہ کمزور ہوگئی تھی جبکہ آپ کثیر العیال تھے ۔حضور رحمت عالم ﷺ سے آپ کی تکلیف نہ دیکھی گئی تو حضرت علی
رضی اللہ عنہ کی پرورش کی ذمہ داری اپنے ذمہ لےلیا ،اس طرح سے حضرت علی رضی اللہ عنہ
آغوش رسالت میں پرورش پا کر شعور کی منزل کو پہنچے۔بعثت کے ابتدائی ایام میں انہوں
نے آپ ﷺ اور ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبری کو نمازپڑھتے
دیکھا تو حیرت سے دریافت کیا کہ آپ دونوں کیا کر رہے ہیں؟رسول گرامی وقار ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ: یہ اللہ کا دین ہے
جس کو اللہ نے اپنے لئے پسند فر مایا ہے اور اسی کے لئے انبیائے کرام کو مبعوث فر مایا
ہے۔میں تمہیں بھی خدائے وحدہ لاشریک کی طرف بلاتا ہوں جو تنہا معبود ہے اور اس کا کوئی
شریک نہیں ہے۔حضور کی صحبت اور تربیت کی برکتوں نے آپ کی فطرت سلیم کو پہلےہی نِکھار
دیا تھا چنانچہ ایک رات سوچنے کے بعد آپ نے بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر اسلام قبول
کر لیا۔اسلام لانے سے پہلے آپ کا دامن عرب کے جاہلی رسوم اور اوثان پر ستی سے کبھی
بھی داغدار نہ ہوا۔
ہجرت:
جب کفاران مکہ نے
خفیہ طریقے سے حضور نبی رحمت ﷺ کو قتل کرنے کا مکمل منصوبہ بنا لیا اور یہ معاملہ طےہوگیا کہ آج رات
ہر قبیلہ کا ایک نوجوان ننگی تلوار لے کر کا شانہء نبوت کا محاصرہ کرے گا اور پیغمبر
اسلام ﷺ پر اچانک حملہ کر کے ان کا کام تمام کردے
گا۔تو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے اپنے حبیب ﷺ
کو کفاروں کے مکرو فریب پر مطلع فر مایا ۔حضور اکرم ﷺ نے اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلایا
اور ارشاد فر مایا کہ: آج رات میرے بستر پر سو جانا اور میرے پاس جو مکہ والوں کی امانتیں
ہیں انہیں واپس کر کے تم بھی مدینہ چلے آنا۔چنانچہ حضور اکرم ﷺ اس رات حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ
کے ساتھ ہجرت کر گئے۔اور حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کے فر مان کے مطابق اُس رات جبکہ گھر کے
چاروں طرف دشمنان اسلام ننگی تلواریں لئے پہرہ دے رہے تھے ۔آپ اطمینان کے ساتھ حضور
کے بستر پر سوئے رہے اس کے بعد آپ تین دن تک اہل مکہ کی امانتوں کو واپس کرتے رہےپھر
آپ بھی ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے گئے۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے شادی: سن ۲/ہجری میں حضور نبی کریم ﷺ نے اپنی سب سے چہیتی لخت جگر حضرت فاطمہ
رضی اللہ عنہا کا نکاح آپ کے ساتھ کر دیا اور بعد نکاح خیر وبرکت کی دعا فر مائی۔ اورحافظ ابن حجر نے”الاصابہ” میں تحریر فر مایا
کہ:نکاح ماہ رجب سن ۱/ہجری میں ہوا اور رخصتی غزوہ بدر کے بعد سن ۲/ہجری میں ہوئی۔اس وقت حضرت سیدہ کی عمر
مبارک ۱۸/سال
کی تھی۔واللہ اعلم۔{خلفائے راشدین،ص:۴۳۲۔۴۳۳۔معارف صحابہ،جلد وال،ص:۳۴۹]۔
خلافت: آپ پوری زندگی اسلام کی خدمت کرتے رہے
۔سن۳۵/ہجری
میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد اکابر صحابہ کرام کے اصرار پر آپ
نے خلافت کو قبول فر مایا اور پانچ سال یعنی ۴۰/ہجری تک سخت دشواریوں اور مصیبتوں کے باوجود
منہج نبوت پر کارِ خلافت انجام دینے کا شرف حاصل کیا۔
فضائل ومناقب: آپ کے عظیم فضائل ومناقب
سے متعلق کتب احادیث میں متعدد روایتیں موجود ہیں ان میں سے چند یہ ہیں۔
(1) حضور نبی کریم ﷺ نے فر مایا کہ:میں جس کا مولیٰ{ولی} ہوں
علی بھی اس کے مولیٰ{یعنی ولی} ہیں۔ (ترمذی،حدیث:۳۷۱۳)
(2) حضور نبی کریم ﷺ نے فر مایا کہ:میں حکمت کا گھر ہوں اور
علی اس کے دروازے ہیں۔ (ترمذی،حدیث:۳۷۲۳9
(3) حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ: بے شک اللہ تعالیٰ
نے مجھے چار لوگوں سے محبت کرنے کا حکم دیا اور مجھے بتایا کہ وہ بھی ان لوگوں سے محبت
فرماتا ہے۔صحابہ کرام نے عرض کیا کہ:یا رسول اللہ ﷺ!ہمیں ان لوگوں کا نام بتائیے۔تو حضور اکرم
ﷺ نے
تین مرتبہ ارشاد فر مایا کہ:علی،انہیں میں سے ہیں اور ابوذر،مقداداور سلمان ہیں۔
(ترمذی،حدیث:۳۷۱۸)
(4) حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان
کرتےہیں کہ:نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ کے درمیان آپس میں ایک کو دوسرے
کا بھائی بنایا تو حضرت علی روتے ہوئے آئے اور عرض کیا کہ:یا رسول اللہ ﷺ!آپ نے ہر ایک کو دسرے کا بھائی بنادیا
ہے اور مجھے کسی کا بھائی نہیں بنایا تو رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ:تو میرا بھائی ہے
دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ (ترمذی،حدیث:۳۷۲۰)-
(5) حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ: حسن اور حسین جنتی
جوانوں کے سردار ہیں اور ان کے والدین (یعنی حضرت علی اور فاطمہ ر ضی اللہ عنہما) اُن
دو نوں سے بھی بہتر ہیں (ابن ماجہ، حدیث :۱۱۸)۔
شہادت : سن ۴۰/ہجری میں ایک منظم منصوبے کے تحت ابن ملجم
نے اس وقت جبکہ آپ نماز فجر کے لئے مسجد کوفہ میں جارہے تھے کہ آپ پر حملہ کر دیا جس
کی وجہ سے آپ کی شہادت واقع ہوئی۔تاریخ شہادت کے بارے میں مورخین کا اختلاف ہے۔علامہ
ابن حجر کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت ۱۷/رمضان المبارک سن ۴۰/ہجری میں ہوئی۔جبکہ طبقات ابن سعد اور تاریخ
الخلفاء میں یہ وضاحت موجود ہے کہ:۱۷/رمضان المبارک کو آپ پر حملہ ہوا اس کےبعددودن تک
آپ بقید حیات رہے اور ۱۹/رمضان المبارک کو آپ اس دارِفانی سے کوچ کر گئے۔اکثر مورخین کے نزدیک
یہی راجح قول ہے۔
اسد الغابہ،ج:۴/ص:۱۱۳۔
طبقات ابن سعد،ج:۳/ص: ۳۶۔
تاریخ الخلفاء،ص:۱۳۹
0 Comments
Please do not enter any spam link in the comments box