اس دوکان پر ہر چیز بکتی ہے

اس دوکان پر ہر چیز بکتی ہے

 

انٹرنیٹ نے انسان کے وجود کو گھما کہ رکھ دیا ہے اور اس کی وجہ سے مواصلات میں اس حد تک انقلاب برپا ہوگیا ہے کہ اب یہ ہماری روزمرہ کی ضروریات کا ترجیحی ذریعہ بن چکا ہے۔ ہم ہر کام میں انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہیں۔ مثلا پیزا آرڈر کرنا ہو، ٹیلیویژن خریدنا ہو، اپنے دوست کے ساتھ ایک لمحہ بانٹنا ہو، کسی خبر کے بارے میں معلومات حاصل کرنی ہو، یا کسی دوست کو تصویر بھیجنی ہو؛ ہم انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہیں۔ انٹرنیٹ سے پہلے اگر آپ کسی خبر کے بارے میں جاننا چاہتے تھے تو آپ صبح سویرے اخبار کو پڑہنے کے لئے شہر کے کسی نیوز اسٹینڈ پر جاتے تھے یا گھر پہ اخبار منگواتے تھے۔ لیکن آج کل آپ کو انٹرنیٹ کے ذریعے سیکنڈوں میں پتہ چل جاتا ہے۔

اکیسویں صدی کے پہلے عشرے میں ویب 2.0 کا خروج انٹرنیٹ کی مختصر تاریخ میں بذات خود ایک انقلاب ہے، جس نے سوشل میڈیا اور دیگر انٹرایکٹو مواصلاتی ٹولوں کے عروج کو فروغ دیا ہے۔ انفارمیشن ٹکنالوجی نے پورے معاشرے میں بنیادی تبدیلی لائی ہے، اور اسے صنعتی دور سے لے کر نیٹ ورک کے دور تک آگے بڑھایا ہے۔ ہماری دنیا میں، عالمی سطح پر معلوماتی نیٹ ورک ایک بنیادی ڈھانچہ ہیں۔ انٹرنیٹ نے کاروبار، تعلیم، حکومت، صحت کی دیکھ بھال اور یہاں تک کہ اپنے پیاروں سے بات چیت کرنے کے طریقوں کو بدل دیا ہے۔ یہ معاشرتی ارتقا کا ایک اہم محرک بن گیا ہے۔ جہاں اس نے مواصلاتی نظام کو بہتر بنایا ہے وہیں اس انٹرنیٹ نے ہمارے لئے روزگار کے ذریعے بھی بڑہا دیئے ہیں۔ اور دینا میں کئی لوگ انٹرنیٹ کے ذریعے پیسے کما کر معاشرے میں اچھی زندگی گذار رہیں ہیں۔ دینا میں آپ نے کئی لوگ دیکھے ہونگے جو صرف کمپوٹر پر بیٹھ کر شام تک لاکھوں کی کمائی کر جاتے ہیں۔ ان کے پاس اتنی تعلیم بھی نہیں ہوتی لیکن اپنی تھوڑی سی مہارت سے YouTube،blogger ، Facebook یا کسی اور سوشل نیٹورک کے ذریعے اپنا کاروبار کر رہے ہیں۔ دنیا میں انٹرنیٹ کے ان سو شل ٹولز کو استعمال کرنے والے عرلوگ ہیں۔ دنیا میں 31 ملین سے زائد یوٹیوب چینلز ہیں جن میں بڑی بڑی کمپنیوں سے لیکر چھوٹے طبقہ تک کے لوگوں نے اس کو اپنا ذریعہ روزگار بنایا ہوا ہے۔ اسی طرح 290 بلین سے زائد لوگFacebook  استعمال کر رہے ہیں۔ جس میں ہندوستان سب سے آگے ہے اور اس کے بعد امریکہ جب کہ پاکستان 11ویں نمبر پر ہے۔ اسی طرح دنیا میں کئی لوگ انٹرنیٹ کے دوسرے سوشل ٹولز کو استعمال کرکے اپنا روزگار کر رہے ہیں۔  آپ کو یہ ٹولز استعمال کرنے کے لئے نہ کوئی زیادہ تعلیم کی ضرورت ہے اور نہ ہی انویسٹمینٹ کی؛ بس تھوڑا سا وقت اور آپ کے اندر جو صلاحیت چھپی ہوئی ہے اسکو استعمال کریں۔ پچھلے دنوں آپ نے سنا ہوگا کہ انڈونیشیا کا ایک شخص کوئی کام کئے بغیر کیمرا کو دو گھنٹے سے زائد وقت تک دیکھتا رہا؛ جس نے ابھی تک 4 ملین سے زائد لوگوں کو YouTube پر اپنے توجہ کا مرکز بنائے رکھا ہے۔ ایسی چھوٹی صلاحیتوں سے ہم لوگ ظاہر کر کے اپنا روزگار حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ نے بھی اپنی زندگی میں کئی لوگ سنے اور دیکھے ہوںگے جنہوں نے ان سوشل ٹولز کو استعمال کرکے لاکھوں روپئے کماکر اپنی زندگی اچھے طریقے سے گذار رہے ہیں۔

میرے ایک دوست نے اپنے رشتہ دار کے بارے میں بتایا کہ اس کو بچپن میں پڑہنے کا کوئی شوق نہیں تھا اور والدین کی سختی کرنے کے بعد بڑی مشکل سے اس نے مئٹرک پاس کیا۔ لیکن جب بڑا ہوا تو اپنی زندگی اچھے طریقے سے گذارنے کے لئے اس کو روزگار کی ضروررت تھی لیکن اسے کوئی اور روزگار نہیں سوجھا اور یوٹیوب کی دینا کو اپنا ذریعہ معاش بنالیا۔ جس سے اس کو پزیرائی ملی اور کچھ عرصہ بعد لاکھوں میں کھیلنے لگا۔ اس کے بعد اپنے والدین کا وہ نکما بیٹا سب سے اچھا اور کمائو پتر بن گیا۔

میرے ایک دوست کو کسی سرکاری محکمہ میں نوکری تھی اور جس سے وہ مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد ریٹائر ہوگیا۔ ریٹارمنٹ کے بعد اس نے یوٹیوب اور بلاگر پہ کام شروع کردیا جس سے وہ سرکاری ملازمت سے تین گنہ زیادہ کما رہا ہے۔ میں نے اس پوچھا کہ یہ سارا مواد کہاں سے اکٹھا کرتے ہو؛ اس نے کہا بھئی اتنی زندگی گذاری ہے میرے دماغ میں کچھ نہ کچھ تو ہوگا اور انگریز نے انٹرنیٹ کی ایسی دوکان بنائی ہے جہاں پر دنیا کی ہر چیز بکتی ہے۔ مجھے اپنے دوست کا جملہ دل سے لگا کہ واقع یہ صحیح کہہ رہا ہے کہ اس انٹرنیٹ پر ہم ہر چیز کو دیکھتے اور پڑہتے ہیں۔ اور دنیا کی کئی ضرورتیں اس سے پوری ہو جاتی ہیں۔

اس لئے ہمیں اس پر عمل کرنے کی سخت ضرورت ہے اور انٹرنیٹ کے سوشل ٹولز کو اپنی تفریح  کے پیچھے اپنا ٹائم ضائع کرنے کے بجائے ان کو صحیح طریقے سے استعمال کرنا چاہئے۔ ہمیں اپنی تکنیکی صلاحیتوں کا جائزہ لینا چاہئے اور ان کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں سرکاری نوکری کا انتظار کرنے کے بجائے ایسے سوشل ٹولز کا سہارہ لیکر اپنے لئے خود ہی روزگار پیدا کرنا چاہئے۔

Post a Comment

0 Comments