عبدالوہاب المعروف سچل سرمست سندھ کے ممتاز سندھی شاعر تھے۔
سچل سرمست 1739 میں سابقہ خیرپور ریاست کے ایک چھوٹے سے گاؤں درزا میں ایک مذہبی
گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام عبدالوہاب تھا، لیکن ان کی واضح اور سچ گوئی
کو دیکھ کر لوگوں نے آپ کو سچو کے لقب سے کہا۔ ان کے والد کا نام میاں صلاح الدین اور دادا
کا نام صاحب ڈنو تھا۔ آپ جب چھہ برس کے تھے تو آپ کے والد اللہ کو پیارے ہو گئے۔
والد کی وفات کے بعد ان کی پالنا دادا خواجہ محمد حافظ نے کی اور دادا کی وفات کے
بعد آپ اپنے چاچا خواجہ عبدالحق کے زیر سایہ رہے۔ آپ جب سات برس کے تھے تو ان کی ملاقات سندھ کے مشہور بزرگ شاھ عبداللطیف بھٹائی سے ہوئی اور ملاقات کے وقت شاھ صاحب نے
سچل سرمست کے لئے سندھی میں ایک جملہ بولا تھا جس کا مطلب ہے "ہم نے جو دیگچا چولہے پر رکھا ہے
اس کا ڈھکن یہ لڑکا اٹھائے گا-
سچل سرمست نے بارہ برس کی عمر میں حافظ عبداللہ قریشی کی سرپرستی میں قرآن شریف کا حفظ کیا اور چودہ برس تک اپنے چچا خواجہ عبدالحق سے سندھی، عربی اور فارسی کی تعلیمات حاصل کی۔
سندھی شاعری میں انہوں نے اپنا تخلص "سچو
یا سچے ڈنو" دیا ہے، اور فارسی زبان میں "آشکارا" دیا ہے۔ بعد میں ان
کی شاعری کے شعلے دیکھ کر انہیں سرمست بھی کہا گیا۔ آپ کا سلسلہ نسب حضرت عمر رضہ سے جاکے ملتا ہے۔ سندھی کے علاوہ آپ نے عربی، سرائیکی،
پنجابی، اردو، فارسی اور بلوچی زبانوں میں بھی شاعری لکھی؛ جس وجہ سے انہیں ہفت زبان
شاعر کہا جاتا ہے۔ سچل سرمست نے ساری زندگی جذبے اور جلال میں گزاری۔ سرمست کو
اپنے عہد کا منصور ثانی کہا گیا ہے۔
آپ سندھ کے روایتی مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے لیکن اپنی
شاعری میں خاندانی اور مذہبی روایات کو توڑ کر اپنی محفلوں میں ہندو اور مسلمان کا
فرق ختم کر دیا اس وجہ سے آپ کے عقیدت مند کئی ہندو بھی ہیں۔ سچل سرمست تصوف میں وحدت
الوجود کے قائل تھے۔
شاہ عبداللطیف اور سچل سرمست کی ادوار میں
ستر برس کا فرق ہے۔ سچل سرمست ستر برس کی عمر کے بعد ان کی صوفیانہ شاعری میں وجدانیت منفرد
تھی اور ان کے ساتھ صوفی ازم کی موسیقی نے بھی سرمستی کا سفرشروع کیا۔ اس وجہ سے شاہ
صاحب کے نسبتاً دھیمے لہجے والے فقیروں سے سچل کے فقیروں کا اندازِ بیان منفرد اور
بیباک رہا ہے۔
سچل سرمست نے تالپور اور کلہوڑوں کے ایسے دور
میں زندگی گذاری جب مذہبی انتہا پسندی عروج پر تھی اور انہوں نے انہی نفرتوں کو دیکھ کر آپ نے ایک سندھی شعر کہا تھا جس کا
ترجمہ ہے "مذہبوں نے ملک میں لوگوں کو مایوس کیا ہے اور شیخی، پیری نے انہیں پریشانی
میں ڈال دیا ہے"۔
سچل سرمست کی شادی ان کے چچا اور استاد
میاں عبدالحق کی بیٹی سے ہوئی، جس سے ان کو ایک بیٹا نیاز علی المعروف موجود پیدا ہوا لیکن
وہ بھی چھوٹی عمر میں ہی فوت ہوگئے تھے۔ سچل کی شادی کے دو سال بعد آپ کی زوجہ فوت
ہوگئی تھی اور اس کے بعد انہوں شادی نہیں کی۔ اور اس طرح آپ کی کوئی اولاد نہیں
رہی۔
سچل سرمست زیادہ عمر ریاضت میں گذارنے کے باوجود تندرست تھے لیکن انہوں نے آخری عمر میں خلوت نشیبی اختیار کی اور نوّے برس کی عمر میں 14 رمضان 1242ھ میں وفات کر گئے۔ آج انہیں اور ان کا کلام سنانے والے فقیروں کو ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ اس لئے آج بھی جب مذہبی انتہا پسندی کو للکارا جاتا ہے تو سچل کے کلام کا بھی سہارا لیا جاتا ہے۔
0 Comments
Please do not enter any spam link in the comments box