پنجاب پولیس کے تقریبا 700 تھانے ہیں جن میں سے 300 کے لگ بھگ تھانے کرائے کی بلڈنگ میں کام کرتے ہیں۔ تھانہ میں 5 - 7 کانسٹیبل، 3 - 4 تفتیشی افسران، ایک ایڈیشنل SHO اور ایک SHO. 24 گھنٹے کے لئے ڈیوٹی سرانجام دیتے ہیں۔ تھانے کے تمام اہلکاروں کے لئے کھانے، پینے کے لئے نہ کوئی میس نہ ہی کوئی بجٹ مختص ہے۔ ان کے آرام کرنے کے کوئی انتظام بھی نہیں ہوتا۔ ایسی حالت میں عملے کے کھانے پینے کا بندوبست علاقے کے صاحب حثیت لوگ کرتے ہیں، اور SHO بوجہ مجبوری کسی کے ذمہ گندم، کسی کے ذمہ سبزی اور کسی کے ذمہ خشک راشن لگاتا ہے۔ تھانے کو ملی ہوئی ایک گاڑی SHO صاحب استعمال کر رہے ہوتے ہیں اور دوسری گاڑی 5 افسران باری باری، گرفتاری، تفتیش، ملزمان کو عدالتوں میں پیش کرنے اور 15 کی کال پہ یا ایمرجنسی میں استعمال کرتے ہیں ۔ ایسی حالت میں صاحب حثیت کی طرف سے راشن پہنچانے کے بدلے میں پولیس اہلکار سارا سال ان کے جائز یا ناجائز باتیں ماننے کے لئے مجبور ہوتے ہیں ۔
کبھی
بھی کسی وزیر اعلی یا آئی جی کو یہ خیال نہیں آیا کہ جس پولیس کو وہ دن رات برا
بھلا کہہ کر صوبہ کو پولیس سٹیٹ کے طعنے دیتے رہتے ہیں؛ اسی ادارے کے اہلکاروں کو بنیادی
سہولیات کی فراہمی کے لئے کوئی بندوبست
کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سیاستدان پولیس نظام میں بہتری چاہتے ہی نہیں۔ کیونکہ ہمارے
ملک کی سیاست چلتی ہی پولیس کے دم سے ہے۔ پولیس میں ساری برائیوں کی جڑ اس صوبہ کا
وزیر اعلیٰ ہے اور آئی جی پولیس برابر کا قصور وار ہے۔
اوپر
سے صحافی صاحبان جن کی اکثریت انپڑھوں پر
مشتمل ہے لیکن سمارٹ فون لیکر پورا دن پولیس
کے خلاف سوشل میڈیا پر پوسٹس لگا کر لوگوں تک جھوٹی خبریں پہنچاتے رہتے ہیں۔ یہی
صحافی پولیس پر رشوت کا الزام لگانے والے کیا اپنا ذریعہ آمدن بتا سکتے ہیں؟ بڑے
سے بڑا ڈکیت یا گینگ فیس بک پیج چلا رہا ہے
لیکن حیرت ہے کہ علاقے کے کسی ایم این اے یا ایم پی اے نے اس پر ایک سوال تک نہیں اٹھایا؛
اور نہ ہی کسی صحافی نے اس کے خلاف کوئی پوسٹ کی نہ ہی لائیو ویڈیو چلائی۔
جب ڈاکوؤں کی پشت پناہی منتخب نمائندے کرتے ہیں، اور صحافی حضرات ان ڈکیت گینگ سے ملاقاتیں
کرکے لائیو ویڈیو بنا کر ڈاکووں کو معصوم اور پولیس کے اہلکاروں کو ظالم بنا کے پیش
کرتے ہیں تو پھر کسی چوری یا ڈکیتی کی واردات پر بھی شور اور واویلا نہ کریں۔
وزیراعظم عمران خان
نے حکومت میں آنے سے پہلے پولیس کو سیاست سے پاک کرنے کے بڑے بلند و بانگ دعوے کئے
تھے مگر وہ بھی دوسرے روایتی سیاست دانوں کی طرح نکلے اور وہ وعدے صرف عوام کو بیوقوف
بنانے کے لئے انتخابی نعرے ہی تھے۔ اگر پولیس کے نظام کو ٹیک کرنا چاہتے ہیں تو کچھہ
مندرجہ ذیل اقدامات کرنے ہونگے:-
1۔ پنجاب کے تمام تھانے سرکاری
زمین خرید پلاٹس پر بنائے جائیں؛ اور ہر تھانے کے ساتھ اہلکاروں کی رہائش کے لئےہوسٹل
اور میس رومز بنانے چاہیے ۔ اس کے ساتھ تمام عملے کے لئے سرکار کی طرف سے میس پر کھانہ
کا بندوبست کیا جائے
2۔ تمام پولیس اہلکاروں کی
ڈیوٹی 8 گھنٹے تک ہونی چاہیئے
3۔ تھانے کی کاغذی
کارروائی کے لئے سٹیشنری اور وہاں پر آنے والے سائلین کی خاطر تواضع کے لئے بجٹ مختص
کیا جائے۔
4۔ پولیس کی تنخواہوں میں سپیشل
الاونس اور رسک الاونسز ملا کر ان کی تنخواہیں بڑھائی جائیں۔
5۔ پولیس اہلکاروں کو
سرکاری ڈیوٹی پر دوسرے ضلع میں بھیجنے کے بعد، یا پولیس کے ریکارڈ عدالتوں تک
پہنچانے کے بعد یا عدالتوں میں کیسز کی پیروی کے دوران ان کو TA/DA دینا چاہیئے۔
6۔ فوج کی طرح پولیس کے
ملازمین کا ملازمین اور افسران کا احتساب اور ان کی سزا یا جزا کا تعین محکمہ کو
کرنا چاہیے۔
7- اچھی کارکردگی دکھانے
والے اہلکاورں کو انعمات دے کر ان کی ہمت افزائی کی جانے۔
8- سروس کے دوران پولیس کی پریشانیوں کے حل
کرنے کے کمیٹیاں تشکیل کی جائیں اور ان کو حل کرنے کے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔
9- جوانوں کی کارکردگی بحال رکھنے کے لئے
ان کو وقتا فوقتا تربیت دینی چاہیے۔
10- شہید اہلکاروں کے خاندانوں کے تحفظ کے
لئے اچھے پیکیجز کا اعلان کیا جائے۔
ایسے طرح کے اقدامات
کرنے میں کوئی زیادہ خرچہ نہیں ہوگا لیکن پولیس کے جوانوں اور افسران میں تحفظ اور
عزت کا احساس پیدا ہوگا۔ اس طرح کہ چھوٹے چھوٹے اقدامات اٹھانے کے باوجود اگر پولیس
کا کوئی افسر یا جوان نہیں اپنے آپ کو ٹھیک نہین کرتا پھر فوج کی طرز پر عمل کرتے
ہوئے کورٹ مارشل جیسی سزائیں دی جائیں تاکہ
عوام کو واقعی تبدیلی نظر آئے اور ان کو تحفظ بھی محسوس ہو۔
0 Comments
Please do not enter any spam link in the comments box