ٹھٹ سولنگی (پرانہ
نام ٹھٹ ہوتچند) تعلقہ بھریا، ضلع نوشہرو فیروز میں واقع سندھ کے مرکز میں ٹھاروشاہ
سے 9 کلومیٹر فاصلہ پرایک قدیم گاؤں ہے جو 18ویں صدی میں آباد ہوا تھا۔ یہاں پر نام
ٹھٹ ہوتچند کے نام سے ایک ریلوے سٹیشن بھی موجود تھا۔
تاریخی پس
منظر
کسی کئنال یا دریاء
کے کنارے پر واقع ملاحوں کی ایک جھونپڑی یا کچھہ زیادہ جھونپڑیوں کو ٹھٹ بولتے
ہیں۔ یہاں سے مچھیرے مچھلی پکڑتے ہیں اور بیچتے ہیں اور ایسی جگہوں پر کشتیوں کو لنگرانداز
بھی کیا جاتا ہے۔ سندھ میں کئی گاؤں ٹھٹ
کے نام سے واقع ہیں؛ جن میں ٹھٹ ولی محمد، ٹھٹ مالہنو، ٹھٹ بھوجراج، ٹھٹ گوارہو
اور ٹھٹ ہوتچند وغیرہ نمایاں ہیں۔ ٹھٹ سے زیادہ بڑے علاقے کو ٹھٹی بولتے ہیں۔
دریاء کے کنارے پر
ہونے کی وجہ سے ٹھٹ ہوتچند بار بار آباد اور تباہ ہوتا رہا ہے۔ مشہور ادیب
عمرالدین بیدار صاحب نے سندھی زبان میں لکھے اپنے ناول "ٹھاروشاہ جنکشن"
میں اس گاؤں کے بارے میں ذکر کرتے ہوئے اس گاؤں کو موہن جو دڑو کی طرز پر بنا ایک
شہر قرار دیا ہے۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ سندھو دریاء کے رخ تبدیل ہونے کی وجہ سے
یہ شہر کبھی آباد ہوا ہے اور کبھی دریاء کے پانی میں چڑہاؤ کی وجہ سے تباہ ہوا ہے
اور یہاں کے لوگوں نے مجبور ہوکر دوسری جگہ پر نیا گاؤں آباد کیا ہے۔ اس شہر سے تقریبا چار کومیٹر دور ایک پرانے شہر
"بھرائی جا دڑا" کے آثار ملے ہیں جن کی اگر صحیح معنوں میں کھدائی کی
جائے تو اس شہر کے بابت کافی معلومات ملے گی۔
ہوتچند جس کے نام پر
یہ شہر آباد ہوا تھا وہ انڈین نیشنل کانگریس کا ایک سرگرم رکن تھا اور 1922 کے
دوران مہاتما گاندھی جب ٹھاروشاہ شہر والے ہری پور سٹیشن پر رکے تھے تو ہوتچند نے
ان کا استقبال کیا تھا۔
پاکستان بننے سے کچھ
عرصہ پہلے اس شہر پہ آسپاس کے مسلمان لٹیروں حملہ کرکے نے سارے شہر کو تباہ کردیا
تھا۔ شہر تباہ ہونے کے بعد اس شہر پر کے اوپر یہاں کے بڑے بڑے زمینداروں کی آپس
میں لڑائی چلتی رہی جو ایک زمیندار کے مرنے کے بعد ختم ہوئی۔ اس کے بعد اس ریلوے
سٹیشن کے نام دلیپوٹا رکھ دیا گیا۔
پاکستان قائم ہونے کے
بعد غلام مہجور نے گاؤں والوں کو اعتماد میں لے کر اس گاؤں کا نام نام ٹھٹ ہوتچند
سے تبدیل کرکے ٹھٹ سولنگی رکھا اور اس گاؤں کو قانونی طور پر رجسٹرڈ بھی کروایا۔
تقریبا دو ہزار آبادی پر مشتمل یہ گاؤں 27 ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے۔
ٹھٹ
سولنگی کی اہم شخصیات
ساری ٹھٹوں کے لوگ ڈاتر
ڈنو ماچھی کو اپنا دادا مانتے ہیں کیوںکہ اصولی پر ٹھٹ کی زمین پر آباد ہونے والا سب
سے پہلے یہ ہی بندا تھا جسے ہوتچند کے ذریعے ٹھٹ اپنے زیر ملا۔ ڈاتر ڈنو ماچھی انگریزوں
کے دور کا ایک مشہور باغی اور بہادر انسان تھا جس نے کئی دہائیوں تک انگریز سرکار
کی نیندیں حرام کی ہوئی تھیں۔ جیسا کہ
ہوتچند کو اس وقت کے امیر اور طاقتور مسلمان زمینداروں سے دھمکیاں مل رہی تھیں؛ اوپر
سے انگریز سرکار کا ملک سے اخراج کا دور چل رہا تھا۔ اس لئے ہوتچند نے اپنی حفاظت
کے لئے ڈاتر ڈنو ماچھی کی بہادری کے وجہ سے اس تک پہنچا۔
ہندستان کے نوجوان
سندھی شاعر لتا ٹہلانی کا تعلق ٹھٹ سولنگی سے تھا،
سندھ کے مشہور سگھڑ، ہڈیاں
جوڑنے کے ماہر اور کھوجی غلام محمد سولنگی کا تعلق بھی اس گاؤں سے تھا۔ اس شخص نے حیدرآباد
کے نارا جیل میں انگریزوں کے دور میں پنجاب کے مشہور ڈاکو چراغ بالی کی پٹیاں
باندھی تھیں۔
مشہور سوشلسٹ، صحافی،
دانشور اور سماجی خدمتکار محمد خان سولنگی بھی تعلق اس گاؤں سے تعلق رکھتے تھے۔ اس
عظیم انسان نے ضیاءالحق کے آمریت والے دور میں کامریڈ نظیر عباسی، فضل راہو اور
دوسرے ساتھیوں کے ٹارچر سیل کی سختیاں دیکھیں لیکن اپنے قول سے پیچھے نہ ہٹے۔
پیپلز پارٹی کے مشہور
کارکن، سندھ اور پنجاب کے پھلوں کے مشہور بیوپاری سیٹھ دادن سولنگی بھی اس گاؤں سے
تعلق رکھتے تھے۔ ان کے بارے میں سندھی میں ابھی بھی یہ محاورہ مشہور ہے کہ " دادن
ڪير سڏائي" یعنی دادن کون بلوائے۔
مشہور شاعر، صحافی
اور تجزیہ نگار منظور سولنگی کا تعلق بھی اس گاؤں سے ہے۔
اطلاعات کا ڈائریکٹر،
صحافی اور شاعر درمحمد کمال بھی اس گاؤں سے تعلق رکھتے تھے۔
مشہور سندھی فنکار
اور شاعر ماسٹر چندر کی بہن بھی اس گاؤں میں رہتی تھی۔ کہتے ہیں کہ ماسٹر چندر کا
بچپن بھی اسی گاؤں میں گذرا تھا اور بعد میں وہ اپنے والدین کے ساتھ ٹھاروشاہ ہجرت
کرگئے تھے۔
حوالہ جات:
گلبہار پپن سولنگی کی
لکھی سندھی کتاب " منهنجي ٺٽ منهنجو ٺٺ"
پروفیسر علی رضا کی
لکھی سندھی کتاب " ٺاروشاھ ٩ ڪلوميٽر"
سندھی کتاب ”سنڌ جي هندن
جي تاريخ"
0 Comments
Please do not enter any spam link in the comments box