ویسے تو پنجاب اور سندھ کی تہذیب اور
رواجوں میں کافی فرق ہے جس میں کچھ روایات میں سندھ کے لوگ پنجاب سے بہت اچھے ہیں جس
وجہ سے سندھ کی سرزمین سے دنیا پیار کرتی ہے۔ جس طرح سندھ کی مہمان نوازی اور
مہمان کو جیسے عزت دی جاتی ہے اس کی مثال پوری دنیا میں نہیں ملتی۔ لوکل ٹوانسپورٹ میں عورت کے ساتھ جس طریقے سے
سندھ کے لوگ برتاؤ کرتے ہیں وہ بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ یا کوئی اجنبی یا دوسرے علاقے
کا مسافر ہمارے سندھ میں داخل ہوتا ہے تو اس کو ایک منفرد طریقے سے پیش آنا تعریف
کے قابل ہے۔ صوبہ سندھ میں لڑکے یا لڑکی کی شادی کرتے وقت اپنے رشتہ داروں میں
رشتہ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اس کے بہ نسبت پنجابی یا دوسری قوموں میں یہ رواج کم
ہے۔ یہاں آج سندھیوں اور پنجابیوں کے دیہاتوں میں رہنے والے لوگوں کی عام روایات
اور عادتوں کا ذکر کریں گے۔ امید ہے کہ آپ لوگ اس سے متفق ہونگے۔
اگر پنجاب کے دیہاتوں میں جا کر وہاں کے
لوگوں کی سرگرمیوں کا جائزہ لیں گے تو پتہ چلے گا کہ پنجابی دیہاتوں کے لوگ اپنے
وقت کا صحیح استعمال کرتے ہوئے اپنے کام میں مصروف رہتے ہیں۔ پنجاب کے دیہاتوں میں
کوئی بھی ہوٹل یا چائے کا ڈھابہ نظر نہیں آئے گا۔ یہاں تک کہ اگر آپ بس سٹینڈ پر جائیں گے تو ادھر
بھی آپ کو کوئی ایک آدھا چائے کا کھوکھا نظر آئے گا لیکن وہاں پر بیٹھنے کی جگہ
نہیں ہوگی۔ گاؤں کے لوگ زمین کے کام کاج
سے فارغ ہوکر گھر میں قالین بنانے یا اور کسی ہنر والے کام میں مصروف ہو جائیں گے اورعورتیں
بھی گھر کے کام سے فارغ ہوکر اپنے مردوں کا اس کام میں ہاتھ بنٹائیں گی۔ پنجاب کے
لوگ سخت مذہبی ذہنیت کے مالک ہوکر بھی اپنی بچیوں کو پڑھانے سے ہچکچاہٹ محصوص نہیں
کریں گے۔
سیالکوٹ، گوجرانولہ، گجرات اور پنجاب کے
کئی ایسے دیہات ہیں جہاں پر عورتیں اور مرد گھر میں کام کرکے ان چیزوں کو فیکٹریوں
تک پہنچا کر اچھی رقم کماتے ہیں۔ آپ اس سے اندازہ لگا لیں کہ پنکھے بنانے والی بڑی
بڑی فیکٹریاں جیسے پاک فین، ملت فین، یونس فین وغیرہ کمپنیوں کے مینجرز گھر گھر جا
کر عورتوں اور بچوں کے ہاتھوں سے بنے کوائل لے کر کارخانوں میں استعمال کرتے ہیں
اور اپنی پروڈکشنز تیار کرکے مارکیٹ میں بھیجتے ہیں۔
سندھہ کے کچھ شہروں میں
جیسا کہ شکارپور، خیرپور، عمرکوٹ، اور دوسرے شہروں میں بھی گھروں میں کا کرنے کا
رواج خاص طور پر غیر مسلم قوموں کے گھروں میں ابھی بھی موجود ہے لیکن عام لوگ اس
طرح کی مصروفیات میں نظر نہیں آئیں گے۔ اگر کوئی شخص کھیتوں کا کرتا ہے یا کوئی اور
مزدوری یا نوکری کرتا ہے تو وہ اسی کام تک محدود رہے گا۔ اور کسی ناگہانی صورتحال
میں اس کا کام بند ہوجاتا ہے تو وہ بے روزگار ہوکر گھر میں بیٹھ جائے گا۔
سندھ کے دیہاتی اس عادت سے بھرپور ہیں کہ
اگر ان کے پاس پیسے نہیں ہیں تو بیل یا کوئی اور جانور بیچ کر میلہ گھومنے جائیں
گے۔ اپنے نوجوان بچوں کو ٹچ موبائل خرید کر دینے کے لئے گھر کا سامان بھی بیچنے سے
گریز نہیں کریں گے۔ اپنے چھوٹے بیٹوں کی سنتیں کروانے یا شادی کروانے کے لئے ہم کسی
سیٹھ یا زمیندار سے قرضہ لیکر اپنا روب جمانے اور ڈینگ مارنے کے لئے فضول خرچ کرتے
رہیں گے۔ بیشک اس کے لئے کاشتاروں کو اپنے
زمیندار کے پاس فصل کو گروی ہی کیوں نہ رکھوانا پڑے۔ اور حساب کے وقت زمیندار کی
گالیاں سنتا رہے گا پھر اس وقت اپنی قسمت کو کوستا رہے گا۔
اگر ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو دیکھا جائے توہمیں
سندھہ میں کئی مسائل نظر آئیں گے جن کو ہم لوگوں نے خود پیدا کیا ہے اور ان کو حل
کرنے کے لئے ہمیں ہی سوچنا ہوگا
یہ پوسٹ سندھی بھائیوں پر تنقید سے بھرپور
ہے مگر اس کو برائے اصلاح پوسٹ کررہے ہیں۔ امید ہے اسے پڑھہ کر ہم اپنی خامیوں پر
ایک نظر ڈال کر اپنے بارے میں ضرور سوچیں گے
کہ ہمارے لئے صحیح اور مفید سمت کونسی ہے۔
0 Comments
Please do not enter any spam link in the comments box