Islam Vs Fathers and Mothers Day



اسلام میں فادر ڈے اور مدر ڈے کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ فادر ڈے یا مدر ڈے ان لوگوں کی ایجاد ہے جن کے والدین اولڈ ہاوس میں سارا سال پڑے رہتے ہیں اور صرف ایک ہی دن مخصوص کر کے  اپنے والدین سے ملنے کے لیے چلے جاتے ہیں اور نام رکھ دیا فادرز ڈے یا مدر ڈے
اسکے برعکس اسلام ہمیں والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتا ہے
17سورة بنی اسرائیل: 23
وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ  اِیَّاہُ وَ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا ؕ اِمَّا یَبۡلُغَنَّ عِنۡدَکَ الۡکِبَرَ اَحَدُہُمَاۤ  اَوۡ  کِلٰہُمَا فَلَا تَقُلۡ لَّہُمَاۤ  اُفٍّ  وَّ لَا  تَنۡہَرۡہُمَا وَ قُلۡ  لَّہُمَا  قَوۡلًا کَرِیۡمًا ﴿۲۳
اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا ۔ اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا ، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا ۔
46 : سورة الأحقاف 15
وَ وَصَّیۡنَا  الۡاِنۡسَانَ بِوَالِدَیۡہِ  اِحۡسٰنًا  ؕ حَمَلَتۡہُ  اُمُّہٗ  کُرۡہًا وَّ وَضَعَتۡہُ  کُرۡہًا ؕ وَ حَمۡلُہٗ  وَ فِصٰلُہٗ   ثَلٰثُوۡنَ شَہۡرًا ؕ حَتّٰۤی  اِذَا بَلَغَ  اَشُدَّہٗ  وَ بَلَغَ  اَرۡبَعِیۡنَ سَنَۃً ۙ قَالَ  رَبِّ اَوۡزِعۡنِیۡۤ  اَنۡ  اَشۡکُرَ  نِعۡمَتَکَ الَّتِیۡۤ  اَنۡعَمۡتَ عَلَیَّ  وَ عَلٰی وَالِدَیَّ  وَ اَنۡ  اَعۡمَلَ صَالِحًا تَرۡضٰہُ وَ اَصۡلِحۡ  لِیۡ  فِیۡ ذُرِّیَّتِیۡ    ۚ  ؕ   اِنِّیۡ  تُبۡتُ  اِلَیۡکَ وَ اِنِّیۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ﴿۱۵
اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے اس کی ماں نے اسے تکلیف جھیل کر پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کرکے اسے جنا ۔ اس کے حمل کا اور اس کے دودھ چھڑانے کا زمانہ تیس مہینے کا ہے یہاں تک کہ جب وہ اپنی پختگی اور چالیس سال کی عمر کو پہنچا تو کہنے لگا اے میرے پروردگار مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر بجا لاؤ ں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر انعام کی ہے اور یہ کہ میں ایسے نیک عمل کروں جن سے تو خوش ہو جائے اور تو میری اولاد کو بھی صالح بنا ۔ میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں ۔
والدین کا تم پر حق یہ ہے کہ ان سے نیکی کرو اور یہ اس طرح ہو گا کہ تم ہر لحاظ سے ان سے بہتر سلوک کرو۔ان کا حکم بجا لاؤ۔اگر اُن کے کسی حکم میں اللہ کی نافرمانی ہوتی ہو تو وہ حکم نہ مانو۔ان سے نرمی سے بات کرو اور خندہ پیشانی سے پیش آؤ۔ان کے مناسب حال ان کی خدمت کرو۔بڑھاپے،بیماری اور کمزوری کے وقت ان کو جھڑکو نہیں اور اس بات کو بوجھ بھی محسوس نہ کرو۔کیونکہ کچھ وقت بعد تم بھی ان کے مقام پر پہنچنے والے ہو۔تم بھی باپ بن جاؤ گے جیسا کہ یہ تمہارے والدین ہیں۔عنقریب تم بھی اولاد کے سامنے بوڑھے ہو جاؤ گے جس طرح یہ تمہارے سامنے بوڑھے ہوئے ہیں اور تم بھی اپنی اولاد سے نیکی کے محتاج ہو گے جیسا کہ آج یہ ہیں۔اگر آج تم ان سے نیکی کر رہے ہو تو تمہیں بہت بڑے اجر اور اولاد سے ایسے ہی سلوک کی خوشخبری ہو۔کیونکہ جس نے اپنے والدین سے نیکی کی اس کی اولاد اس سے نیکی کرے گی اور جس نے والدین کو ستایا اس کی اولاد ضرور اسے ستائے گی۔یہ مکافات عمل ہے کہ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے ۔اللہ تعالیٰ نے والدین کے حق کو بڑی اہمیت دی ہے۔اس لیے اس نے اپنے حق (عبادت) کے ساتھ والدین کے حق کا ذکر کیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا۟ بِهِۦ شَيْا ۖ وَبِٱلْوَٰلِدَيْنِ إِحْسَٰنًۭا۔
ترجمہ: "اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ بھلائی کرو۔"(سورۃ النساء،آیت 36(
نیز فرمایا:        أَنِ ٱشْكُرْ لِى وَلِوَٰلِدَيْكَ      ترجمہ: "کہ تو میرا شکر ادا کر اور اپنے والدین کا بھی۔ "(سورۃ لقمان، آیت 14(
نبی کریم نے والدین سے نیکی کرنے کے عمل کو جہاد فی سبیل اللہ پر مقدم رکھا ہے۔جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے،وہ کہتے ہیں ،میں نے پوچھا: "اے اللہ کے رسول ! اللہ کو کون سا عمل سب سے زیادہ پسند ہے؟"
آپ نے فرمایا:
)الصلاة على وقتها). قال: ثم أي؟ قال: (ثم بر الوالدين). قال: ثم أي؟ قال: (الجهاد في سبيل الله(
)صحیح بخاری و صحیح مسلم(
"نماز کو اس کے وقت پر پڑھنا۔میں نے پوچھا،پھر کون سا؟آپ نے فرمایا: والدین سے اچھا سلوک کرنا۔میں نے کہا: پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔"
اس حدیث کو بخاری اور مسلم دونوں نے روایت کیا ہے اور والدین کے اس حق کی اہمیت پر دلیل ہے جسے اکثر لوگوں نے ضائع کر رکھا ہے وہ ان کو ستاتے اور قطع رحمی کرتے ہیں،پھر کچھ ایسے بھی ہیں جو انہیں حقیر سمجھتے ،ڈانٹتے اور ان پر آوازیں بلند کرتے ہیں۔ایسے لوگ عنقریب اس کی سزا پائیں گے۔

Post a Comment

0 Comments