واقعہ معراج کب اور کس تاریخ کو ہوا ؟



نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے آسمانی معجزات میں سے معراج کا واقعہ بھی بہت زیادہ اہمیت کاحامل اور ہماری مادی دنیا سے بالکل ہی ماوراء اور عقل انسانی کے قیاس و گمان کی سرحدوں سے بہت زیادہ بالاتر ہے ۔ معراج کا دوسرا نام اسراء بھی ہے ۔ اسراء کے معنی رات کو چلانا یا رات کو لے جانا چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے واقعہ معراج کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا کے الفاظ سے بیان فرمایا ہے اس لیئے معراج کا نام اسراء پڑ گیا اور چونکہ حدیثوں میں معراج کا واقعہ بیان فرماتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے عُرِجَ بِیْ (مجھ کو اوپر چڑھایا گیا) کا لفظ ارشاد فرمایا اس لیئے اس واقعہ ک انام معراج ہو گیا ۔
احادیث و سیرت کی کتابوں میں اس واقعہ کو بہت کثیر التعداد صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے بیان کیا ہے ۔ چنانچہ علامہ زرقانی رحمۃ اللہ علیہ نے 45 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نام بنام گنایا ہے جنہوں نے حدیث معراج کو روایت کیا ہے ۔  (المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی ، المقصد الخامس فی تخصیصہ...الخ ،جلد نمبر 8، صفحہ 25 تا 27،چشتی)
معراج شریف ایسا عظیم معجزہ اور مرتبہ ہے ، جو صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو عطا کیا گیا اور کائنات میں آپ کے سواء کسی بھی نبی علیہ السّلام کو ایسا معجزہ نہیں عطا ہوا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بعثت کے بعد سے انسان کی خلائی پرواز اور کائینات کی وسعتوں میں جولانی اور ہر نئے دن اس میں ترقی کی مناسبت سے معراج کا معجزہ ، جس کے سامنے ساری طاقتیں عاجز ہیں ، سرفراز کیا گیا اور یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سیدالاولین والآخرین اور خاتم النبیین ہونے کی صداقت اور دلیل و شہادت ہے ۔
وہ سرورِ کِشورِ رِسالت ، جو عرش پر جلوہ گَر ہو ئے تھے
نئے نِرالے طَرَب کے ساماں عَرَب کے مہمان کے لیے تھے
لفظ ’’ معراج ‘‘ عروج کا اسم آلہ ہے ، اس کے معنی سیڑھی ہے ، مگر شریعت میں معراج سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا آسمانوں سے اوپر ، قاب قوسین اور دنیٰ فتدلیٰ میں تعریف لے جانا ہے ، معراج کا مقصد آپ کی شان عظمت کا اظہار ، دیدارِ الہٰی اور آیات خداوندی کا مشاہدہ (لنریہ من آیاتنا) اور آپ کی شان عظمت پر ایمان کا سارے انسانوں سے امتحان ۔ معراج شریف جسم کے ساتھ بیداری میں ایک بار ہوئی اور روحانی معراج 34 مرتبہ ہوئی ۔
معراج کی تاریخ کے بارے میں قول راجح 27  رجب المرجب شب دوشنبہ بعثت کے گیارہویں سال ہے ۔ مزید اس بارے میں علماء کرام کے 10 اقوال موجود ہیں ۔
1: ہجرت سے 6ماہ قبل
2: ہجرت سے 8ماہ قبل
3: ہجرت سے11ماہ قبل
4: ہجرت سے 1 سال قبل
5: ہجرت سے ایک سال اور 2ماہ قبل
6: ہجرت سے ایک سال اور 3ماہ قبل
7: ہجرت سے ایک سال 5ماہ قبل
8: ہجرت سے ایک سال 6ماہ قبل
9: ہجرت سے 3 سال قبل
10: ہجرت سے5سال قبل
یہ دس اقوال علماء سیرت کے موجود ہیں لیکن علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری شرح صحیح بخاری شریف میں جو ترجیح دی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد اور بیعت عقبہ سے پہلے معراج ہوئی اگر اس بات کو ترجیح دی جائے تو معراج نبوت کے دسویں سال کے بعد اور گیارہ نبوی میں سفر طائف سے واپسی کے بعد ہوئی ۔
معراج کی تاریخ ، دن اور مہینہ میں بہت زیادہ اختلافات ہیں ۔ لیکن اتنی بات پر بلا اختلاف سب کا اتفاق ہے کہ معراج نزول وحی کے بعد اور ہجرت سے پہلے کا واقعہ ہے جو مکہ معظمہ میں پیش آیا اور ابن قتیبہ دینوری (المتوفی ۲۶۷ ھ) اور ابن عبدالبر (المتوفی ۴۶۳ ھ) اور امام رافعی و امام نووی علیہم الرّحمہ نے تحریر فرمایا کہ واقعہ معراج رجب کے مہینے میں ہوا ۔ اور محدث عبدالغنی مقدسی رحمۃ اللہ علیہ نے رجب کی ستائیسویں بھی متعین کر دی ہے اور علامہ زرقانی نے تحریر فرمایا ہے کہ لوگوں کا اسی پر عمل ہے اور بعض مؤرخین کی رائے ہے کہ یہی سب سے زیادہ قوی روایت ہے ۔ (زرقانی جلد 1 صفحہ 355 تا 358،چشتی)واقعہ معراج حق ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے جو کچھ بیان کیا حق ہے ۔ جمہور علماء کے نزدیک 27 رجب کو ہوا تھا ۔ معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا مقصد تاریخ بتانا نہیں بلکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی قدر و منزلت اور شان بیان کرنا ہے ۔ اس لیے ضروری نہیں کہ تاریخ کا ذکر حدیث مبارکہ میں ہو ۔ بلکہ جتنے بھی بڑے بڑے واقعات ہوئے ہیں کسی کا ذکر بھی حدیث میں تاریخ کے حوالے سے نہیں ہوا ۔ بلکہ مورخین اور تاریخ دان لوگ بیان کرتے ہیں ۔ اسی طرح قرآن مجید میں بڑے بڑے واقعات ذکر کیئے گئے ہیں لیکن تاریخ نہیں بیان کی گئی ، یہاں تک کہ نزول قرآن یا ابتدائے وحی کی تاریخ بھی قرآن میں نہیں ہے ۔ لہٰذا ایسے سوالات کرنا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے ۔ اصل مقصد کو جانا چاہیئے ۔
 معراج کتنی بار اور کیسے ہوئی
جمہور علماء ملت کا صحیح مذہب یہی ہے کہ معراج بحالت بیداری جسم و روح کے ساتھ صرف ایک بار ہوئی جمہور صحابہ و تابعین اور فقہاء و محدثین نیز صوفیہ کرام کا یہی مذہب ہے ۔ چنانچہ علامہ حضرت ملا احمد جیون رحمۃ ﷲ تعالیٰ علیہ (استاد اورنگ زیب عالمگیر بادشاہ) نے تحریر فرمایا کہ : وَ الْاَصَحُّ اَنَّهٗ کَانَ فِی الْيَقْظَةِ بِجَسَدِهٖ مَعَ رُوْحِهٖ وَعَلَيِْه اَهْلُ السُّنَّةِ وَ الْجَمَاعَةِ فَمَنْ قَالَ اِنَّهٗ بِالرُّوْحِ فَقَطْ اَوْ فِي النَّوْمِ فَقَطْ فَمُبْتَدِعٌ ضَالٌّ مُضِلٌّ فَاسِقٌ ۔ (تفسيرات احمديه بنی اسرائيل صفحہ 408 ، چشتی)
ترجمہ : اور سب سے زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ معراج بحا لت بیداری جسم و روح کے ساتھ ہوئی یہی اہل سنت و جماعت کا مذہب ہے ۔ لہٰذا جو شخص یہ کہے کہ معراج فقط روحانی ہوئی یا معراج فقط خواب میں ہوئی وہ شخص بدعتی و گمراہ اور گمراہ کن و فاسق ہے ۔
خبر یہ تحویلِ مہر کی تھی ، کہ رُت سہانی گھڑی پھرے گی
وہاں کی پوشاک زیب تن کی ، یہاں کا جوڑا بڑھا چکے تھے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سراپا معجزہ بن کر اس دنیا میں تشریف لائے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے جمالات و کمالات اور روشن ترین معجزات تو بے شمار ہیں ، لیکن معراج وہ فضیلت ہے جو ربِّ کائنات نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے سوا کسی نبی یا رسول علیہ السّلام کو عطا نہیں کی ، یہی وہ موقع تھا جب رب العزت نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو نمازوں کا تحفہ عطا کیا ۔
واقعہ معراج کو اسلامی تاریخ میں انتہائی اہمیت حاصل ہے ، ستائیس رجب المرجب کو انوار وتجلیات کے جلوے سمیٹے حضرت جبرائیل علیہ السلام پچاس ہزار فرشتوں کے ہمراہ جنتی براق لئے آسمان سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی چچا زاد ہمشیرہ حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کے گھر حاضر خدمت ہوئےاور عرض کی کہ رب العزت آپ سے ملاقات کا مشتاق ہے ، یہی وہ مقدس شب ہے جب انسانیت معراج سے سرفراز ہوئی اور آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم زمین سے عرش بریں تک جا پہنچے ۔ فضا درود و سلام سے گونج اٹھی اور آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے سفر معراج کا آغاز فرمایا ، چاروں طرف نور پھیل گیا ، کائنات کے پورے نظام کو روک دیا گیا ، پہلے آسمان سے ساتویں آسمان تک اوالعزم انبیاء اور ملائکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا استقبال کیا ۔ جنت کی سیر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سدرۃ المنتہیٰ پہنچے تو عرش نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا دامن تھام لیا اور تمام حجابات ہٹا دیئے گئے ۔ یہی وہ وقت تھا جب پروردگارعالم نے اپنی محبوب ترین ہستی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے ملاقات کی اور نماز کا تحفہ عطا کیا ۔ جب تاجدارحرم عرش معلیٰ سے تشریف لائے تو گھر کے دروازے کی کنڈی ہل رہی تھی ، بستر گرم تھا اور وضو کا پانی بہہ رہا تھا ۔ معراج مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے لئے ہی وقت کوروکا گیا اور پھر اسی محبوب کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے لئے وقت کو جاری کیا گیا ۔
(معارج النبوۃ)،(مدارج النبوۃ)،(مواہب الدنیہ)

Post a Comment

0 Comments