خوبصورت ترین قہقہہ (حصہ اول)

 

خوبصورت ترین قہقہ

خوبصورت ترین قہقہہ

تحریر:  طارق بلوچ صحرائی   

انسان جیسے جیسے فطری زندگی کی نعمت سے دور ہوتا جاتا ھے۔ اُس کا دل سخت ہوتا جاتا ھے ۔ سخت دلوں پر نہ تو اللہ کی رحمت اُترتی ھے اور نہ ہی اُن کے ہونٹوں پر قہقہہ رقص کرتا ھے۔ زندگی ہاتھ کھولے رکھے یا مُٹھی سختی سے بند کر لے وقت اُس کا زائچہ بنا ہی لیتا ھے۔ کچے آنگن میں نیم کے شجر کے نیچے رکھا خالی پنجرہ آخری پنچھی اُڑ جانے کے بعد ایسے ہی اُداس تھا جیسے باغ میں پھول چہروں والے بچوں کے بغیر شیشم کے پیڑ پر جھولتا جھولا۔ آفتاب کھجور کے اونچے درخت کے پیچھے کب کا اوجھل هوچکا تھا اور رات کے رُخسار پر ’’چندا ماموں‘‘ ماں کے جنونی بوسے کی طرح چمک رہا تھا، ماں کی شبنمی ہجر زدہ نگاہوں کی طرح رات کی آنکھ سے بھی بے شمار سپنے گِر رہے تھے اور چمکتے تارے اُن پر ہاتھ رکھ کر اُن کو روکنے کی سعی کر رہے تھے۔ جیون کی مامتا جانتی ہے ماں کے دم سے ہی زندگی کا لفظ معتبر ھے ایک کہاوت ھے  خدا ہر جگہ نہیں پہنچتا۔ اس لیے اُس نے ماں کو تخلیق کیا اگر کوئی محسوس کر لے سچ تو یہی ھے کہ ماں کے جانے کے بعد کوئی بھی زندہ نہیں رہتا۔ شاید اس لیے کہ ہماری زندگی کاپتا صرف ماں کی آنکھوں سے ملتا ہے۔ اُسے اب بھی یاد تھا جب وہ باپ کے بے حد اصرار پر پردیس جا رہا تھا۔ اُس کی ماں نے اُداس آنکھوں سے کہا تھا، پُتر جِسے ہجر کا ناگ ڈس لے وہ زندگی کے میلے میں تنہا افسردہ دل لیے پھرتا ھے میرے بیٹے یاد رکھنا کتوں کے ساتھ سونے والے صبح مکھیوں کے ساتھ اُٹھتے ہیں۔ لوگوں کے ہاتھوں میں پکڑے پتھر دیکھ کر مت گھبرانا بس میری طرح ہاتھوں میں دُعائیں پہنے رکھنا۔ میری باتوں پر غور ضرور کرنا کیونکہ زندگی کے دُکھ کو ماں اور آستین کے دُکھ کو سپیرے سے زیادہ کوئی نہیں جان سکتا۔


سرسبز پہاڑوں اور دریا کے درمیان یہ ایک چھوٹا سا گاؤں  تھا۔ شہر سے بہت دور اور دشوار گزار راستے کی بدولت ابھی یہاں شہروں والی بے حسی اور فتنات شروع نہیں ہوئے تھے۔ خوبصورت باغات میں گھرے اس گاؤں کے مکین جانتے تھے کہ شجر آسمانوں پر نہیں اُگتے اور انھیں یہ بھی گیان تھا کہ خدا نے وقت کو بنایا تھا اور انسان نے جلدی کو، دوستوں کے بغیر زندگی گزارنے کا کوئی تصور ہی نہ تھا شاید وہ جانتے تھے دوست کے بغیر زندگی ایسے ھی ھےجیسے موت کا کوئی گواہ نہ ہو گاؤں میں اگرچہ بجلی آ چکی تھی۔ مگر چوہدری نثار عباسی کے گھر کے سوا ابھی تک کسی نے کنکشن نہیں لیا تھا، شاید گاؤں والے جلتے ہوئے چراغوں کے رومان کے اسیر تھے اور شاید اُن کی یادوں کے چراغ انھی چراغوں کی لَو سے ہی سلگتے تھے۔ گاؤں کے ساتھ ہی ماسٹر ممتاز علی کا ڈیرہ تھا جہاں ہم پانچ لوگ بیٹھے ہوئے تھے ان پانچوں میں ہمارا بچپن کا ایک دوست اسد عباسی بھی تھا۔ اسد چوہدری نثار عباسی کا بیٹا تھا جو گاؤں کا سب سے امیر شخص تھا۔ اسد امریکہ میں تیس سال گزارنے کے بعد آج کل پاکستان آیا ہوا تھا۔ ماسٹر ممتاز علی کو ریٹائر ہوئے بیس سال ہو چکے تھے وہ علم و دانش کا بہتا دریا تھے۔ گاؤں  والے ہر معاملے میں صلاح و مشورہ کے لیے انھی کے پاس آتے تھے۔ لوگ صلح صفائی کے لیے بھی انھی کے پاس آتے ہیں۔ وہ اکثر کہتے ہیں کہ لوگوں کی غلطیوں کو اس طرح نظر انداز کر دیا کرو۔ جس طرح دورِ جہالت میں غلاموں کے سینوں میں پڑے ہوئے دل نظر انداز ہوتے تھے۔ میں اکثر ماسٹر جی کے پاس بیٹھا اُن سے سوالات کرتا رہتا ہوں اُن کی باتیں روح تک کو سیراب کر جاتی ہیں مجھے یاد ھے میں اُس دن بہت اُداس تھا اندر ایک انجانا سناٹا تھا جیسے بارش کے بعد سمندر خاموش ہو جاتا ھے  میں ماسٹر جی کے ڈیرے پر چلا آیا میں نے ماسٹر جی سے سوال کیا۔

ماسٹر جی زندگی کیا ھے؟

وہ مسکرائے اور بولے

زندگی عام دنیا دار شخص کے لیے ویرانے میں مدفن خزانے کے اُس نقشے کی طرح ھے جس کا آدھا حصہ گم ہو چکا ھے ۔ مگر جس کا تعلق خالق سے جُڑ جائے فنائیت اُس کے سامنے سجدہ ریز ہو جاتی ھے  اور زندگی اُس کے لیے قبولیت اور عطا کے درمیان خوبصورت لمحے کا نام ھے۔

شہر سے آنے والے ایک شخص نے ماسٹر جی سے پوچھا شہر میں جو آج کل نئی بیماری کی وبا آئی ہوئی اس کا حل کیا ھے ؟

بولے!

وبائیں آندھیوں کی طرح ہوتی ہیں یہ زیادہ دیر کے لیے نہیں ہوتیں اس کا حل یہ ہے کہ وبا کے دنوں میں رابطے محدود کر لیں جب تک اس بیماری کا علاج دریافت نہ ہو جائے شہد کا استعمال کر یں اور جب ظاہری اسباب بالکل ناپید ہو جائیں تو آیت کریمہ کا ورد کثرت سے کریں اور اللہ کی پاکیزگی بیان کرتے ہوئے اپنی غلطیوں کا اعتراف کر کے دعاؤں میں اُس سے مدد طلب کریں۔


میرے علاوہ اسد عباسی بھی اُن کا شاگرد رہ چکا تھا۔ اسد ماسٹر جی سے صرف ایک دو سال ہی پڑھا تھا۔ پھر اُس کے والد نے اُسے اسلام آباد میں داخل کروایا دیا تھا۔ قائداعظم یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس کی ڈگری لینے کے بعد وہ سکالر شپ پر آسٹریلیا چلا گیا تھا اور پھر ایک بہت اچھی آفر پر امریکہ منتقل ہو گیا تھا اب وہ یہاں ڈیرے پر بیٹھا ہمیں اپنی دُکھ بھری داستان سنا رہا تھا اور ہم سب دُکھی ہو کر اُس کی جگ بیتی سن رہے تھے۔


ماسٹر جی میری ماں کی مخالفت کے باوجود مجھے میرے باپ نے اسلام آباد کے بڑے اسکول میں داخل کروا دیا۔ وہاں ہوسٹل میں رہ کر میں نے بڑی محنت کی، پھر میں یونیورسٹی چلا گیا وہاں میں نے ایم اے کی ڈگری لی اور سکالر شپ پر آسٹریلیا پڑھنے چلا گیا۔ میرا فیلڈ مائیکرو چپ تھا وہاں آسٹریلیا میں اس فیلڈ میں میرا کوئی ثانی نہ تھا۔ پھر ایک بڑی آفر پر میں امریکہ چلا گیا میں نے اپنے شعبے میں جنون کی حد تک محنت کی مجھے یاد نہیں میں کبھی گھر دن کی روشنی میں آیا ہوں گا۔ آپ جانتے ہیں میری یہاں اپنی خالہ زاد سیمی سے میری نسبت طے تھی مگر ماں کی التجاؤں کے باوجود بھی میں نے وہاں ایک امریکن عورت سے شادی کر لی۔

جاری ہے، اگلا حصہ دیکھنے کے لئے یہاں کلک کریں


Post a Comment

0 Comments