چارلی چیپلن 88 سال زندہ رہے؛ اس کے کچھہ سنہری
اقوال:-
- اس دنیا میں کچھ بھی
ہمیشہ کے لئے نہیں ، یہاں تک کہ ہمارے مسائل بھی نہیں ہیں۔
- مجھے بارش میں چلنا
اچھا لگتا ہے کیونکہ میرے آنسوں کو کوئی نہیں دیکھ سکتا ہے۔ زندگی کا سب سے گمشدہ دن وہ دن ہوتا ہے جس دن ہم
ہنس نہیں پاتے۔
- دنیا کے چھہ بہترین
ڈاکٹر سورج، آرام، ورزش، غذا، عزت نفس اور دوست ہیں۔
- اپنی زندگی کے ہر
مرحلے پر ان پر قائم رہو اور صحتمند زندگی بسر کرو، اگر آپ چاند کو دیکھیں گے تو آپ
کو خدا کی خوبصورتی نظر آئے گی؛ اگر آپ سورج دیکھیں گے تو آپ خدا کی قدرت کو دیکھیں
گے۔ اگر آپ کو آئینہ نظر آئے گا ، آپ خدا کی بہترین تخلیق دیکھیں گے۔ تو یقین کرو۔
ہم سب سیاح ہیں ، خدا ہمارا ٹریول ایجنٹ ہے جس نے پہلے ہی ہمارے راستوں، بکنگ اور منزلوں
کی نشاندہی کی ہے. اس پر بھروسہ کریں اور زندگی سے لطف اٹھائیں۔ زندگی بس سفر ہے! لہذا
، آج زندہ رہو! کل نہیں ہوسکتا ہے۔
ریڈیو پر ٹیلی فونک انٹرویو میں اناؤنسر نے اپنے
ایک کروڑ پتی مہمان سے پوچھا : " آپ کو زندگی میں سب سے زیادہ خوشی کس چیز میں
ہوئی؟" وہ کروڑ پتی مہمان
بولا: میں زندگی بھر خوشیوں کے چار مراحل سے گزرا چکا ہوں اور آخر میں مجھے حقیقی خوشی
ملی۔ سب سے پہلے مال اور اسباب جمع کرتے وقت لیکن اس میں مجھے وہ خوشی نہیں ملی جو
مجھے چاہیے تھی. پھر قیمتی سامان اور اشیاء جمع کرنے لگا۔ لیکن میں نے محسوس کیا
کہ اس کا اثر بھی وقتی طور پر ہے اور قیمتی چیزوں کی چمک دھمک بھی زیادہ دیر تک نہیں رہتی. پھر میں نے بڑے بڑے پروجیکٹ
حاصل کیے؛ جیسے کہ کسی ٹورسٹ ریزارٹ یا فٹ
بال ٹیم خریدنا وغیرہ خریدنا؛ لیکن یہاں بھی مجھے وہ خوشی نہیں ملی جو میرے تصور میں
تھی۔ لیکن اس مرتبہ ایسا ہوا کہ ایک دوست نے مجھ سے بولا کہ میں کچھ معذور بچوں کے
لیے وہیل چیئرس خریدنے میں اپنا حصہ ڈالوں. اپنے دوست کی اس بات پر میں نے وہیل چیئرس
خرید کر دے دیں اور دوست اصرار کیا کہ میں
اس کے ساتھ جا کر اپنے ہاتھ سے وہ وہیل چیئرس معذور بچوں کے حوالے کروں. میں تیار ہو
کر اور دوست کے ساتھ گیا. وہاں پر جا کر میں نے بچوں کو اپنے ہاتھوں سے وہ کرسیاں بانٹیں.
اس وقت میں نے ان بچوں کے چہروں پر خوشی کی عجیب لہر دیکھی. میں نے دیکھا کہ وہ
بچے کرسیوں پر بیٹھ کر گھوم رہے ہیں اور جی بھر کے مزے کر رہے ہیں. مجھے ایسا لگ
رہا تھا کہ وہ کسی پکنک پوائنٹ پر آئے ہوئے ہیں. اسی دوران مجھے حقیقی خوشی کا احساس
ہوا جب میں وہاں سے جانے لگا تو ان بچوں میں سے ایک بچے نے میرے پاءوں پکڑ لیے. میں
نے اپنے پاءون چھڑانے کی کوشش کی لیکن وہ بچہ پاءوں چھوڑے بغیر میرے چہرے کی طرف بغور دیکھتا رہا. میں نے جھک
کر اس بچے کے سر پر ہاتھہ رکھہ کرپوچھا : آپ کو کسی اور چیز کی ضرورت ہے؟ اس وقت بچے
نے جو کہا؛ اس جواب نے نہ صرف مجھے حقیقی خوشی دلائی، بلکہ میری زندگی کو پوری طرح
بدل دیا.اس بچے نے کہا: میں آپ کے چہرے کو اپنے ذہن میں پوری طرح بٹھانا چاہتا ہوں
تاکہ جب میں جنت آپ سے ملوں تو آپ کو پہچان سکوں اور اس وقت اپنے رب کے سامنے بھی آپ
کا شکریہ ادا کر سکوں۔
0 Comments
Please do not enter any spam link in the comments box