حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ، جو آدمی سب سے آخر میں جنت میں داخل ہوگا وہ گرتا پڑتا اور گھسٹتا ہوا دوزخ سے اس حال میں نکلے گا کہ دوزخ کی آگ اسے جلا رہی ہوگی۔ پھر جب دوزخ سے نکل جائے گا تو پھر دوزخ کی طرف پلٹ کر دیکھے گا اور دوزخ سے مخاطب ہو کر کہے گا کہ بڑی بابرکت ہے وہ ذات جس نے مجھے تجھ سے نجات دی۔ اور اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ نعمت عطا فرمائی ہے کہ اولین وآخرین میں سے کسی کو بھی وہ نعمت عطا نہیں فرمائی۔ پھر اس کے لئے ایک درخت بلند کیا جائے گا۔وہ آدمی کہے گا کہ اے میرے پروردگار مجھے اس درخت کے قریب کر دیجئے تاکہ میں اس کے سایہ کو حاصل کر سکوں اور اس کے پھلوں سے پانی پیوں۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے اے ابن آدم اگر میں تجھے یہ دے دوں تو پھر اس کے علاوہ اور کچھ تو نہیں مانگے گا؟ وہ عرض کرے گا کہ نہیں اے میرے پروردگار!
اللہ تعالیٰ اس سے اس کے علاوہ اور نہ مانگنے
کا معاہدہ فرمائیں گے اور اللہ تعالیٰ اس کا عذر قبول فرمائیں گے کیونکہ وہ جنت کی
ایسی ایسی نعمتیں دیکھ چکا ہوگا کہ جس پر اسے صبر نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اسے اس درخت
کے قریب کردیں گے وہ اس کے سائے میں آرام کرے گا اور اس کے پھلوں کے پانی سے پیاس بجھائے
گا۔ پھر اس کے لئے ایک اور درخت ظاہر کیا جائے گا جو پہلے درخت سے کہیں زیادہ خوبصورت
ہوگا۔وہ آدمی عرض کرے گا۔ اے میرے پروردگار مجھے اس درخت کے قریب
فرما دیجئے تاکہ میں اس کا سایہ حاصل کر سکوں اور اس کا پانی پیوں ۔اور اس کے بعد میں
اور کوئی سوال نہیں کروں گا۔ اللہ تعالی فرمائیں گے. اے ابن
آدم کیا تو نے مجھ سے وعدہ نہیں کیا تھا کہ تو مجھ سے اور کوئی سوال نہیں کرے گا۔ اور
اب اگر تجھے اس درخت کے قریب پہنچا دیا تو پھر تو اور سوال کرے گا۔ اللہ تعالیٰ پھر
اس سے اس بات کا وعدہ لیں گے کہ وہ اور کوئی سوال نہیں کرے گا تاہم اللہ تعالیٰ کے
علم میں وہ معذور ہوگا کیونکہ وہ ایسی ایسی نعمتیں دیکھے گا کہ جس پر وہ صبر نہ کر
سکے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ اس کو درخت کے قریب کر دیں گے وہ اس کے سایہ میں آرام کرے
گا اور اس کا پانی پئے گا پھر اسے جنت کے دروزاے پر ایک درخت دکھایا جائے گا جو پہلے
دونوں درختوں سے زیادہ خوبصورت ہوگا۔ وہ آدمی کہے گا
اے میرے رب مجھے
اس درخت کے قریب فرما دیجئے تاکہ میں اس کے سایہ میں آرام کروں اور پھر اس کا پانی
پیؤں اور اس کے علاوہ کوئی اور سوال نہیں کروں گا۔پھر اللہ تعالیٰ اس آدمی سے فرمائیں
گے اے ابن آدم کیا تو نے مجھ سے یہ وعدہ نہیں
کیا تھا کہ تو اس کے بعد اور کوئی سوال نہیں کرے گا۔ وہ عرض کرے گا ہاں اے میرے پروردگار
اب میں اس کے بعد اس کے علاوہ اور کوئی سوال نہیں کروں گا۔ اللہ اسے معذور سمجھیں گے۔
کیونکہ وہ جنت کی ایسی ایسی نعمتیں دیکھے گا کہ جس پر وہ صبر نہیں کر سکے گا پھر اللہ
تعالیٰ اسے اس درخت کے قریب کردیں گے۔ جب وہ اس درخت کے قریب پہنچے گا تو جنت والوں
کی آوازیں سنے گا تو وہ پھر عرض کرے گا اے میرے رب مجھے اس میں داخل کر دے۔ تو اللہ فرمائیں گے اے ابن آدم تیرے سوال کو کون سی چیز روک سکتی ہے کیا تو اس پر راضی ہے
کہ تجھے دنیا اور دنیا کے برابر مزید دے دیا جائے۔ وہ کہے گا اے رب! اے رب العالمین تو مجھ سے مذاق کرتا ہے؟
یہ حدیث بیان کر کے حضرت عبداللہ رضی اللہ
تعالیٰ عنہ ہنس پڑے اور لوگوں سے فرمایا کہ تم مجھ سے کیوں نہیں پوچھتے کہ میں کیوں
ہنسا۔لوگوں نے کہا کہ آپ کس وجہ سے ہنسے؟
فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
اسی طرح ہنسے تھے۔ فرمایا اللہ رب العالمین کے (اسکے شان کے لائق) ہنسنے کی وجہ سے
جب وہ آدمی کہے گا کہ آپ رب العالمین ہونے کے باوجود مجھ سے مذاق فرما رہے ہیں؟؟ تو
اللہ فرمائیں گے کہ میں تجھ سے مذاق نہیں کرتا مگر میں جو چاہوں کرنے پر قادر ہوں۔
صحیح مسلم
0 Comments
Please do not enter any spam link in the comments box