رمضان کی پہلی تراویح تھی، مسجد نمازیوں
سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی، ابھی فرض پڑھے جا رہے تھے کہ اتنے میں صف کے ایک کونے سے
ایک چھوٹا سا بچہ نمازیوں کے آگے چلنے لگا، اور پھر دوڑنے لگا، وہ ایک کنارے سے دوسرے
کنارے تک دوڑ رہا تھا، پھر صفیں بھی تبدیل
کرنے لگا، کبھی ایک صف میں دوڑتا اور کبھی دوسری صف میں دوڑ لگادیتا۔ فرض کا سلام پھیرا
گیا لیکن کسی کی زبان سے اس بچے کے لیے کوئی سخت الفاظ نہ نکلے۔ سنتوں کی ادائیگی شروع
ہوئی تو بچے نے پھر سے وہی حرکت شروع کر دی، اب کی دوڑ اس کے لیے زیادہ دلچسپ ہوگئی
تھی، کسی پزل گیم کی طرح وہ کبھی ایک کے رکوع سے بچتا تو کبھی کسی کے سجدے سے لیکن
اپنی دوڑ لگا رکھی تھی، کہ اچانک سجدے میں جاتے ایک نمازی سے ٹکرا کر گر پڑا اور رونا
شروع کردیا۔ ایک نمازی نے اسے گود میں اٹھایا اور اسے سہلاتا رہا کہ خاموش ہوجائے لیکن
بچہ بدستور روتا رہا، اتنے میں پچھلی کسی صف سے اس کا والد آیا اور اس کو اٹھا کر اپنے
پاس بٹھا لیا۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اس پورے دورانیہ میں نہ تو کسی نے بچوں کو
مسجد سے نکالنے کی بات کی، اور نہ ہی یہ کہا کہ چھوٹے بچوں کو مسجد نہ لے کر آئیں،
کسی نے اپنے خشوع و خضوع میں خلل پیدا ہونے
کا گلہ بھی نہیں کیا، اور نہ ہی والد کو نصیحتوں کا بوجھ اٹھا نا پڑا۔ یہ رویہ ترکی
کی مساجد میں عمومی طور پر مل جاتا ہے، جس میں سب سے اہم یہ سوچ کارفرما ہے کہ اگر
ہم نے آج اپنے بچوں کی ان شرارتوں کے باعث انہیں ڈانٹنا اور مسجدوں سے بھگانا شروع
کردیا تو یہ بچے مسجدوں سے دور ہوجائیں گے۔
فیس بک پر ایک مسجد کےنوٹس بورڈ کی تصویر گردش میں ہے جس پر ترکی زبان میں تین پیغامات درج
ہیں، اہمیت کے پیش نظر احباب کی نذر کررھا ھو۔
نمازیوں کے لیے اہم پیغام،
1۔ اس مسجد میں بچوں کو استثنا حاصل ہے مطلب
انہیں کچھ بھی نہیں کہا جائے گا.
2۔ مسجد میں نماز پڑھتے وقت اگر پچھلی صفوں
سے بچوں کے ہنسنے اور دوڑنے کی آوازیں نہ آئیں،
تو ہمیں اپنی اس آنے والی نسل کے لیے فکر مند ہوجانا چاہیے۔
3۔
اپنی ڈانٹ ڈپٹ کی وجہ سے مسجد میں آئے بچوں کے ذہن میں ہمارے بارے میں غلط تصور
پیدا کرنے کے بجائے براہ کرم اپنی تراویح اپنے گھر میں پڑھیے. ایسا عمل اگر ہماری مسجدوں میں شروع ہوجائے تو آنے
والی نسلیں، ایک اِسلام پسند اور صلوۃ کی پابند ہوگی.
0 Comments
Please do not enter any spam link in the comments box