رزق کی تلاش اور اس کی تقسیم! ایک سبق آموز تحریر

 

رزق کی تلاش اور اس کی تقسیم! ایک سبق آموز تحریر
اگر آپکو اچھا رزق مل رہا ہے تو یقین جانیں اس میں آپکی صلاحیتوں یا ذہانت کا کمال نہیں، دنیا میں بڑے بڑے عقلمند  لوگ خاک چھان رہے ہیں۔ اگر آپ کسی بیماری میں مبتلا نہیں ہیں تو اس میں آپکی خوراک یا حفظانِ صحت سے متعلقہ احتیاطی تدابیر کا کوئی عمل دخل نہیں ہے؛ بلکہ ایسے بہت لوگوں سے قبرستان بھرے پڑے ہیں جو منرل واٹر کے بغیر کوئی پانی استعمال نہیں کرتے تھے؛ مگر ان کو اچانک بلڈ کینسر، برین ٹیومر یا  اور کوئی لاعلاج بیماری لاحق ہوئی اور چند مہینوں یا دنوں میں وہ دنیا سے گذر گئے۔ اگر آپ کے بیوی بچے آپکے تابع دار و فرمانبردار ہیں اور خاندان میں بیٹے بیٹیاں مہذب، باحیا و با کردار سمجھے جاتے ہیں، تو اس کا کریڈٹ بھی آپ کی تربیت کو نہیں جانا چاہیے کیوں کہ اولاد تو نبیوں کی بھی بگڑ سکتی ہے اور بیویاں تو ولیوں کی بھی نافرمان ہو سکتی ہیں۔ اگر آپکی کبھی جیب نہیں کٹی یا  اور کوئی ناگوار نقصان نہیں ہوا تو اس سے یہ مطلب نہ نکالیں کہ آپ چوکنّہ اور ہوشیار رہتے ہیں، بلکہ اس سے یہ ثابت ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے آپکو  رہزنوں اور جیب کتروں سے محفوظ کیا رکھا ہوا ہے۔

الحمدللّٰہ مجھے بھی مذکورہ بالا تمام نعمتیں میسر ہیں سوائے اس کے کہ ایک دفعہ مجھہ سے حیدرآباد میں جیب سے 5000 نکل گئے تھے وہ بھی اس وجہ سے کہ میرے ایک دوست سے موبائل نکلنے پر میرے دل میں خیال آیا کہ لوگ کس طرح مستی اور مدھوشی میں چلتے رہتے ہیں کہ ان کی جیب سے موبائل نکل جائے اور ان کو پتہ تک نہیں چلتا؛ اور بس اگلے ہی دن میرے جیب سے بھی پیسے نکل گئے۔  اپنے ساتھ ہوئے اس واقعے کے بعد اپنے اندر جھانکا تو میرے من سے آواز آئی کہ اے ڈیڑھ ہوشیار! جب تقدیر میں نقصان لکھا ہو تو عقل گھاس کھانے جایا کرتی ہے۔ جب آدمی دوسروں سے اچھا کما رہا ہو تو غالباً ہر آدمی یہ کی سوچ ہوتی ہے کہ وہ دوسروں سے زیادہ محنتی، چالاک، منظم اور اپنے کام میں زیادہ ماہر ہے اور وہ ان لوگوں کو حقیر اور کم عقل سمجھ کر ان پر تنقید اور ان کا مذاق اڑاتا ہے جن کو نپا تلا رزق مل رہتا ہے۔ لیکن جب اچانک وقت کا پہیہ الٹا گھومنا شروع ہو جاتا ہے تو اسے پتہ ہی چلتا ہے کہ جو وہ سمجھ بیٹھا تھا، حقیقت اس کے برعکس تھی۔

میرے ایک دوست پہلے مجبور و پریشان تھے؛ اس کا کا دبئی میں ایک بڑے آدمی سے واسطہ پڑا؛ اس کے توسط سے کنسٹرکشن کی کمپنی کھول لی اور اس کے بعد سمجھیں کہ وہ لاکھوں میں کھیلنے لگا۔ ایک دن میں اس دوست سے ملاقات کرنے گیا؛ وہاں میں نے اپنے دوست سے ایک مشترک دوست کے بابت پوچھا جو بیچارہ مفلوک الحال رہا کرتا تھا۔ پھر تو وہ اس غریب دوست کے بارے میں کہنے لگے کہ وہ تو کم عقل آدمی ہے، اور ساری زندگی یوں ہی غربت میں گزار دی؛ یہ کر لیتے وہ کر لیتے اور وغیرہ وغیرہ۔

کوئی دس بارہ سال کے بعد  مجھے اس امیر دوست کے آفس جانا ہوا۔ وہاں پر وہ خود تو نہیں ملے لیکن پورا اسٹاف بھی بدلا نظر آیا۔ میں نے موصوف کے بابت پوچھا کہ وہ کہاں چلے گئے ہیں اور پہلے تو یہ ان کا ددفتر ہوتا تھا! وہاں پر مجھے بتایا گیا کہ وہ اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔ تفصیل میں پتہ چلا کہ وہ صاحب کاروبار میں نقصان کے سبب پیچھے ہوتے چلے گئے اور اس طرح مقروض اور نادہندہ ہو کر جیل چلے گئے؛ چیک باؤنس کے جرم میں انکو سزا ہوئی اور سزا کے دوران جیل میں اس حال میں انتقال کر گئے کہ فیملی پاکستان میں تھی اور قریب  کوئی فیملی میمبر یا رشتیدار نہیں تھا۔ یہ بات سنتے ہی میرے ذہن میں دس سال پہلے اسی دفتر کا منظر سامنے آیا جہاں وہ گھومتی کرسی پر بیٹھ کر مرحوم ایک سادا اور خدا مست دوست کی مالی ابتری کی باتیں کر رہا تھا۔ اور میں نے آنکھوں سے دیکھ چکا تھا کہ بادشاہ کو فقیر بنتے دیر نہیں لگتی۔

اگر آپ چاہتے ہیں کہ رزق کے معاملہ آپکو آزمایا نہ جائے تو یہ تین کام کریں؛ اوّل: آپکو جو مل رہا ہے اس کو اپنی قابلیت کا نتیجہ نہ سمجھیں بلکہ رزاق کی عطا سجھہ کر اس کا شکر ادا کرتے رہیں۔ دوئم: جن کو رزق کم مل رہا ہے ان کو حقیر نہ سمجھیں اور نہ ہی ان لوگوں سے حسد کریں جن کو اللہ تعالیٰ نے چھپر پھاڑ رزق عطا کیا ہے۔ یہ سب اوپر والے کی بانٹ ہے۔ اور وہ اس کے بھید جانتا ہے۔ سوئم: جتنا ہو سکتا ہے دوسروں کو بھی اپنے رزق میں شامل کریں؛ اور اگر زیادہ ہے تو زیادہ دیں، کم ہے تو کم شامل کرے۔ سب سے زیادہ حق والدین اور اس کے بعد بہن بھائیوں، دادا دادی اور نانا نانی کا ہے۔ پھر دوسرے رشتہ دار اور مسکین و لاچار لوگ ہیں جن کو اپنی روزی کا حصہ دار بنائیں۔ یقین رکھیں جب آپ کے حق میں بہت سے ہاتھ  دعا کے لئے اٹھیں گے تو آپ پر برکت کی موصلہ دھار بارش  برسے گی  اور اس کی ٹھنڈی پھوار آپکی زندگی کو گلشن گلشن بنا دے گی.

Post a Comment

0 Comments