تابوت اور نمازی

 ہمارے گائوں میں ابو احسان نامی ایک بزرگ فوت ہوگئے، عمر رسیدہ تھے اور اللہ ان کے درجات بلند فرمائے۔ خیر ان کی نماز جنازہ اور تدفین کے بعد تابوت واپس ساتھ والی مسجد میں لایا گیا۔ رات کا وقت تھا اور مسجد بند ہونے کے سبب تابوت کو مسجد کے دروازے کے سامنے رکھا گیا تا کہ صبح کے وقت خادم اٹھا کر اسے اپنی جگہ پر رکھہ دے گا.

رات کو کوئی ساڑھے تین بجے کے وقت ایک شخص مسجد میں آیا اور مسجد کا دروازہ بند دیکھا، وہ شخص کچھ دیر انتظار کرتا رہا لیکن سردیوں کے دن تھے اور اسے سردی لگ رہی تھی تو اس نے تابوت کھول کر اس کے اندر سوگیا۔ آدھے گھنٹے کے بعد جب خادم آیا تو اس نے ایک نمازی کی مدد سے ھس تابوت کو اٹھا کر محراب کے ساتھ بنی ہوئی مخصوص جگہ پر رکھ دیا۔ نیند کی غنودگی کے بائث انہیں تابوت کے زیادہ وزن کا بھی اندازہ نہ ہوا۔ اس وقت مؤذن نے اذان دی، گائوں والے نماز کے لیے پہنچے اور جماعت کھڑی ہوگئی۔

تقریبَا پچاس کے قریب لوگ جماعت میں شامل تھے اور میں پہلی صف میں کھڑا ہوا تھا۔ ابھی دوسری رکعت پڑھ رہے تھے کہ سامنے تابوت پہ میری نظر پڑی۔ عجیب خوفناک منظر دیکھا کہ تابوت ہل رہا ہے۔ میرے جسم میں ایک سنسنی خیز لہر دوڑنے لگی۔ میں نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیں لیکن تابوت بدستور ہل رہا تھا۔ شاید میت کا ہیولا کھڑا ہو۔ اتنے میں وہ آدمی اٹھا اور تابوت سے سر نکال کر پوچھا  کہ تم لوگوں نے نماز پڑھ لی؟

اللہ معاف کرے لوگوں کی تو دوڑیں لگ چکی تھیں اور میں تو الٹے پائوں ایک سوبیس کی سپیڈ سے گھر کی طرف دوڑا گھرمیں پہنچ کر مجھے معلوم ہوا کہ میں ننگے پیر ہی گھر پہنچا ہوں۔ امام صاحب پہلے ہی بے ہوش ہو کر زمین پہ گر پڑے تھے، کچھ لوگ تو دوڑتے ہوئے دیواروں سے ٹکرانے کی وجہ سے گر گئے تھے،  کچھ لوگ میری طرح ننگے پیر باہر بھاگ کر آ رہے تھے، کچھ وضو خانوں میں پھسل کر گر چکے تھے، سب کے سب اندھا دھند بھاگ رہے تھے، تابوت والا شخص بھی پیچھے سے دوڑ رہا تھا اور اس کو بھی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آخر ہوا کیا ہے.

Post a Comment

0 Comments