حضرت عثمان غنی رضہ جن کی سخاوت پوری دنیا کے لئی مثال ہے
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں ایک آدمی ملک شام سے سفر کرتا آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا کہ آپ مالدار بھی ہیں اور مسلمانوں کے سربراہ بھی ہیں۔ آپ کی خدمت میں ایک کرتا ہوں کہ میرے اوپر کافی زیادہ قرضہ چڑھ گیا ہے اور اس کی ادائیگی کے لئے آپ میری مدد کریں ۔
آپ اس کو اپنے گھر لے گئے؛ وہ شخص کہتا ہے کہ باہر سے دروازہ بہت خوبصورت تھا لیکن گھر پر ایک چارپائی بھی نہ تھی ، کھجور کی چھال کی چٹائیاں بچھی ہوئی تھیں اور وہ بھی پھٹی ہوئی ۔ اس شخص نے کہا سیدنا صدیق ابوبکر(رضی اللہ تعالی عنہ) نے مجھے چٹائی پر بٹھا لیا اور مجھے کہنے لگے یار ایک عجیب بات نہ بتاؤں میں نے کہا بتائے تو عرض کرنے لگے تین دن سے میں نے ایک اناج کا دانہ بھی نہیں کھایا؛ کھجور پر گزارا کر لیتا ہوں آجکل میرے حالات کچھ ٹھیک نہیں ہیں -
وہ شخص حضرت ابوبکر سے کہنے لگا حضور میں اب پھر کیا کروں میں تو بہت دور سے امید لگا کر آیا تھا ۔ تو آپ فرمانے لگے تو عثمان غنی کے پاس جا ۔ وہ شخص کہنے لگا مجھےتو بہت سارے پیسے چاہیے ہیں ۔ آپ نے فرمایا تیری سوچ جہاں ختم ہوتی ہے وہاں سے عثمان کی سخاوت شروع ہوتی ہے تو جو سوچتا ہے اتنے ہی ملیں گے؛ تو جا ان کے پاس ۔
وہ آدمی کہنے لگا آپ کا نام لوں کے مجھے امیرالمومنین نے بھیجا ہے توفرمانے لگےاس کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی ۔ صرف اتنا بتانا کہ میں مقروض ہوں اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہ کا نوکر ہوں ۔ وہ شخض کہنے لگا کے وہ دلیل، حوالہ مانگے گے۔ آپ نے فرمایا عثمان رضہ سخاوت کرتے وقت دلیل یا حوالے نہیں مانگتے؛ عثمان اللہ کی راہ میں دیتے ہوئے تفتیش نہیں کرتا ، اور سخاوت کرتے وقت ٹٹولنا عثمان رضہ کی عادت نہیں ۔
وہ شخص کہتا ہے کہ
میں چلا گیا اور پوچھتے پوچھتے ان کے دروازے پر دستخط دی ۔ حضرت عثمان غنی کے اندر سے بولنے
کی آواز آ رہی تھی اور وہ اپنے بچوں کو ڈانٹ
رہے تھے کہ یار تم لوگ دودھ کے اندر شہد ملا کر پیتے ہوں خرچا تھوڑا کم کرو اتنا خرچا
بڑھا دیا ہے دودھ میٹھا شہد بھی مٹھا ایک چیز استعمال کرلو تم کوئی بیمار تھوڑی ہوں"
شخص کہتا ہے میں نے
کہا ابوبکر تو بڑی باتیں بتا رہے تھے یہاں تو دودھ اور شہد پر لڑائی ہو رہی ہے اور
مجھے تو کئی ہزار دینار چاہیے کیا یہ دے دے گا ۔ وہ شخص کہتا ہے کہ میں ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اندر سے دروازہ کھلنے کی آواز
آئی ۔
وہ باہر آئے اور میں نے کہا اسلام علیکم! انہوں نے سلام کا جواب دیا اور وہ سمجھ گئے کہ میں مسلمان ہوں اور مخاطب ہوکر کہنے لگے معاف کرنا بچوں کو ذرا ایک بات سمجھانی تھی اس وجہ سے آنے میں ذرا دیر ہو گئی ۔
ان کا پہلا جملہ ان کے بڑے پن کا مظاہرہ کر رہا تھا پھر دروازہ
کھولا اور مجھے انہوں نے گھر بٹھایا اور میرے لئے جو پہلی چیز پیش کی گئی وہ دودھ میں شہد ڈال کر دیا گیا اور پھر کھجور کا حلوہ پیش کیا ۔
شخص کہتا ہے کہ میرے دل میں خیال آیا عجیب شخص ہے گھر والوں کے ساتھ جھگڑا کر رہے تھے ایک چیز استعمال کیا کرو میرے لیے تین تین چیزیں آ گئی ہے ۔ لیکن ابھی میرا تصور جما نہیں تھا اور میں نے دل میں خیال کیا کہ اتنا تگڑا نہیں جتنا ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے بتایا ہے ۔ وہ شخص کہتا ہے کہ کھلانے پلانے کے بعد پوچھنے لگے کیسے آئے ہو ۔ میں نے کہا کہ" میں مسلمان ہو اور ملک شام کے ایک گاؤں سے آیا ہوں؛ کچھ کاروباری مشکلاتوں کی وجہ مقروض ہوگیا ہوں اس لئے مجھے کچھ پیسوں کی ضرورت ہے ۔
میں نے کچھ پیسے کہا تو انہوں نے ایک آواز دی تو ایک غلام اونٹ پر سامان لدا ہوا لیکر حاضر ہوا۔ شخص کہتا ہے کہ مجھے تین ہزار اشرفیاں چاہیے تھی ۔ ابھی میں نے بتایا نہیں تھا کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کہنے لگے " اس اونٹ پر تیرے لئے تیرے گھر والوں کے لئے کپڑے، کھانے پینے کا سامان اور 6000 اشرفیاں رکھوا دی ہے اورتو پیدل آیا تھا اب اونٹ لے کر جانا" شخص کہنے لگا میں نے فوراَ سے کہا حضور یہ اونٹ انہیں واپس کرنے کون آئے گا ۔ حضرت عثمان فرمانےلگے واپس کرنے کے لیے دیا ہی نہیں یہ تحفہ ہے تو اس کو لے جا ۔
شخص کہتا ہے کہ میں کہاں سے چلا تھا ڈھونڈتا ہوا اور پھر مدینے میں آیا اور جب مدینے میں آیا تو اللہ نے مجھے جھولی بھر کے عطا فرمایا کہتا ہے میری آنکھوں میں آنسوں آگئے اور میں نے کہا حضور آپ نے تو مجھے میری ضرورت سے کہیں بڑھ کر نواز دیا ہے معاف کیجئے گا میں سوچ رہا تھا دودھ شہد پر تو گھر میں لڑائی ہو رہی ہے۔
تو حضرت عثمان رضی
اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ نے جو پیسے عثمان
کو دیے ہیں وہ اس لئے نہیں دیے کہ عثمان کی اولادیں عیش مستی کرتی پھریں ؛ میرے مالک
نے مجھے نوازا ہے تاکہ میں محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کہ نوکروں کی نوکری کروں ۔
شخص کہتا ہے میں دروازے
تک گیا تو میں نے کہا شکریہ! کہتا ہے ابھی میں نے بتایا نہیں تھا کہ مجھے ابوبکر صدیق
رضی اللہ تعالی عنہ نے بھیجا ہے کہ آپ فرمانے
لگے کہ شکریہ ابوبکرصدیق (رضی اللہ تعالی عنہ) کا ادا کرنا جس نے تجھے یہ راستہ دکھایا
ہے ۔
شخص کہتا ہے کہ میں نے کہا حضور آپ کو تو میں نے بتایا ہی نہیں کے مجھے تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ مسکرا کر فرمانے لگے چھوڑوں آپ کا کام ہو گیا اس تفصیلات میں نہ پڑو -
0 Comments
Please do not enter any spam link in the comments box