مزاح سے بھرپور مگر پر اثر باتیں





امی میں کیسے پیدا ھوا تھا ؟ منے نے کچن میں مصروف ماں سے سوال کیا ؛ بیٹا میں نے مٹی ایک ٹھیکرے میں ڈال کر اس میں پانی ڈال دیا تھا۔  کچھ دنوں کے بعد دیکھا تو تم بنے ھوئے تھے، امی نے ھانڈی میں جھانک کر اپنی مسکراھٹ چھپا لی تھی۔
منے نے صحن میں پھولوں کی کیاری کے پاس سے ایک ٹوٹے ھوئے گملے کا ٹھیکرا اٹھایا اور اس میں گیلی مٹی بھر کر مرغیوں کے ڈربے کے پاس اندھیرے میں رکھ دیا۔  ھفتے دس دن بعد منے کو کھیلنے کے لئے دوسرا بچہ نہیں مل رھا تھا کہ اچانک اس کا دھیان اپنے بچے کی طرف چلا گیا؛ وہ بھاگم بھاگ ڈربے کے پاس پڑے ٹھیکرے تک پہنچا اور اس میں ھاتھ ڈال دیا؛ اچانک ایک مینڈک پھدک کر باھر آ گیا ،، اب منا پیچھے پیچھے اور مینڈک آگے آگے ،، جب مینڈک کسی طرح قابو نہ آیا تو منے نے سرخ لال گالوں سے پسینے کے قطرے پونچھے اور بڑی بے بسی سے بولا ،، دل تو کرتا ھے تمہیں گولی مار دوں لیکن آخر کو تم میری اولاد ھو!

ایک بوڑھی خاتون نے ریڈیو اسٹیشن فون کیا کہ وہ کئی دنوں سے بهوکی ہے اور کئی دنوں سے صرف سوکھی روٹی اور پانی پر گزار کر رہی ہے اور کہا کہ اللہ کی راہ میں اسے کچھ کهانے کے لئیے دیا جائے۔ ایک منکر خدا بهی اس کی گفتگو سن رہا تها اور اس کو ایک مذاق کی عادت سوجهی.  اس نے کهانے پینے کی اشیاء خریدیں اور اس بوڑهی عورت کا ایڈرس معلوم کرنے کے بعد اپنے نوکر سے بولا کہ جا کر اس بوڑهی عورت کو دے آئو۔ اور جب وہ پوچھے کہ کس نے بهیجا ہے تو بتانا یہ شیطان کی طرف سے تحفہ ہے۔ وہ بوڑھی عورت اتنے زیادہ کهانے کا سامان دیکھ کر بهت خوش ہوئی اور جلدی اپنے گهر کے کونے میں وہ رکهنے لگی۔ ایسے میں نوکر نے پوچھا کیا آپ معلوم نہیں کرنا چاہیں گی کہ یہ سامان کس نے بهیجا ہے؟  یہ سن کر وہ بولی "مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ کس نے بهیجا ہے  مگر اتنا معلوم ہے کہ جب میرے رب کا حکم آتا ہے تو شیطان بهی حکم کی تعمیل کرتا ہے"!

ایک عورت ماہر نفسیات کے پاس گئی اور کہا میں شادی نہیں کرنا چاہتی کیونکہ میں پڑھی لکھی ہوں، خود کماتی ہوں اور خود مختار ہوں اس لئے مجھے خاوند کی ضرورت نہیں ہے مگر میں بہت پریشان ہوں کیونکہ میرے والدین شادی کیلئے دباؤ ڈال رہے ہیں۔  میں کیا کروں ؟ ماہر نفسیات نے کہا بیشک تم نے بہت کامیابیاں حاصل کرلی ہیں لیکن بعض دفعہ تم کوئی کام کرنا چاہو مگر نا کر سکو، کبھی تم سے کچھ غلط ہوگا، کبھی تم ناکام ہوجاؤ گی، کبھی تمھارے پلان ادھورے رہ جائیں گے، کبھی تمھاری خواہشیں پوری نہیں ہوں گی۔۔ تب تم کس کو قصوروار ٹھہراؤ  گی؟ کیا اپنے آپ کو قصور دو گی ؟ لڑکی: نہیں بالکل نہیں، اپنے آپ کو کیوں دوں گی؟ ماہر نفسیات۔  بالکل یہی وجہ ہے کہ تمھیں ایک خاوند کی ضرورت ہوگی جسے اپنی غلطیوں کا ذمہ دار ٹھہرا سکو!

ایک بار ایک دیہاتی بڈھا بابا ریل میں سفر کررہا تھا، اس ڈبے میں دو جوان لڑکے بھی تھے۔ ایک بڑا لڑکا کہتا ہے کہ یار آج زنجیر کھینچنی چاہیے۔ چھوٹا لڑکا کہتا ہے کہ بلا وجہ زنجیر کھینچنے پر پچاس روپے جرمانہ ہوگا۔  بڑا لڑکا کہنے لگا کہ کوئی بات نہیں، میرے پاس تیس روپے ہیں۔ تمہارے پاس کتنے ہیں؟  چھوٹا کہنے لگا کہ اس کے پاس بیس روپے ہیں۔  بڑا کہنے لگا ، پھر زنجیر کھینچ دیتے ہیں، جرمانہ ہوا تو دے دیں گے۔  ایک نے زنجیر کھینچ دی۔ کچھ دور جاکے ریل گاڑی رک گئی، اور ریلوے گارڈ آگئے اور پوچھنے لگے کہ زنجیر کس نے کھینچی؟  بڑے لڑکے نے ہوشیاری دکھائی اور بابے کی طرف اشارہ کیا کہ اس بابے نے زنجیر کھنچی ہے۔  گارڈ نے بابا جی سے پوچھا کہ بزرگو آپ نے زنجیر کیوں کھنچی؟ بابا پہلے تو حیران ہوا، پھر سنبھل کر کہنے لگا کہ اس کے پاس پچاس روپے تھے، جو ان دونوں لڑکوں نے اس سے چھین لیے ہیں اور آپس میں بانٹ لیے ہیں، اس لیے اس نے زنجیر کھنچی۔  گارڈ نے لڑکوں کی تلاشی لی اور پچاس روپے نکلے، جو گارڈ نے بابے کو دیئے اور لڑکوں کو گرفتار کرکے ساتھ لے گئے.


Post a Comment

0 Comments