میراجسم میری مرضی کہنے والو یہ دیکھو اللہ کا عذاب



مدینہ منورہ سے کوئی 300 کلومیٹر دور ایک خاموش علاقہ ہے ۔ اس کو مدائن صالح کہتے ہیں۔ اس علاقے میں حضرت صالح ؑ کی قوم آباد تھی۔ اس قوم کو قوم ثمود بھی کہتے ہیں ۔ یہ قوم حضرت ہود ؑ  کی قوم کے ہم عصر تھے۔ حضرت ہود کی قوم کو قوم عاد کہتے ہیں ۔ جن کی باقیات آج کل بحرین کے صحرا ابار میں موجود ہیں ۔
جنانچہ قوم صالح ؑ یا قوم ثمود نے اللہ سے کفر کیا۔ بہت بڑے لمبے چوڑے اور طاقتور تھے، انہوں نے پہاڑوں کے اندر اپنے گھر بنا رکھے تھے۔ جو کسی بھی موسمی شدت کا مقابلہ کر سکتے تھے۔ وہ حضرت صالح ؑ کی تبلیغ کے مقابلے میں کہتے اے صالح ہمارے عظیم الشان گھروں کو دیکھ کیا ہم بہت زیادہ طاقت والے نہیں ؟ اگر ہمارے مقابلے پر کوئی اور قوم ہے ان کو لاؤ ہمارے سامنے ۔لیکن جب انہوں نے اللہ کی نشانی ایک اونٹنی کو مار ڈالا اونٹنی کا بچہ روتا ہوا چیختا چلاتا ہوا ایک پہاڑی میں گم ہو گیا۔ حضرت صالحؑ نے اپنی قوم سے فرمایا کہ 3 دن اپنے گھروں میں فائدہ اٹھا لو ۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ جھوٹا نہیں ہو گا۔ تو اللہ نے  حضرت صالحؑ کو اور کچھ لوگوں کو اپنی مہربانی سے بچا لیا ۔اس قوم کو چنگاڑ نے آ پکڑا ۔۔۔ وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے ۔ فرشتے کی وہ چیخ یا چنگاڑ اتنی شدید تھی کہ ان کے کلیجے پھٹ گئے، اور اپنی گھروں میں پڑے پڑے ہی ہلاک ہو گئے ۔ وہ جتنے بھی طاقتور تھے لیکن اللہ سے زیادہ زور آور نہیں ہو سکتے ۔ وہ برتر اور اعلی ہے ۔
روایت میں ہے کہ حضرت محمد ﷺ اپنے کچھ اصحاب کے ساتھ اس علاقے سے گزرے ۔ حضرت محمد ﷺ کے چہرہ  انوار پر اضطراب تھا۔ اور ایسا لگتا تھا وہ جلدی میں ہیں۔ وہاں کے لوگوں نے ایک کنوئیں کا پانی پیش کیا، لیکن حضرت محمد ﷺ نے اپنے اصحاب کو منع فرما دیا اور جلد وہاں سے نکلنے کا حکم دیا، صحابہً نے اضطراب کی وجہ پوچھی تو حضرت محمد ﷺ نے فرمایا یہاں اللہ کا عذاب نازل ہوچکا ہے۔ یہ علاقہ حضرت صالح ؑ کی قوم کا ہے جس پر اللہ نے سخت عذاب نازل کیا ۔
وہاں نا رکنا اور نا پانی پینا ایسے راز ہیں جس کی خبر ہمیں نہیں ہے، حضرت محمد ﷺ طبعیتا معصوم ہیں چنانچہ عذاب الہی کا سن کر عام شخص اندر سے دہل جاتا ہے۔ وہ تو اللہ کے رسول ہیں جن کو اللہ کی طاقت کا بخوبی علم ہے۔
بالکل ایسے ہی قوم لوطؑ کے ساتھ ہوا۔ وہ لوگ ہم جنس پرستی جیسے مکروہ کام میں پڑ چکے تھے، حضرت لوط ؑ نے ان کو خبر دار کیا لیکن عیش و عشرت اور گناہوں کی لزت میں اس قدر غرق تھے کہ حضرت لوط ؑ کو ستانا شروع کر دیا۔
حضرت لوط ؑ حضرت ابراہیم ؑ کے ہم عصر تھے ۔ اپنی قوم کو بہت سمجھایا لیکن وہ باز نہیں آئے۔ اللہ نے اپنے فرشتے حضرت لوط ؑ کی طرف بھیجے انہوں نے حضرت لوط ؑ سے کہا کہ کچھ رات رہے یہاں سے اپنے اہل و آیال کو لیکر نکل جائیں ۔ اللہ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ ہمارے عذاب کا وقت صبح ہے ۔۔ اور کیا صبح کچھ دور ہے ؟؟
فرشتوں نے تاکید کی کہ کوئی شخص پیچھے مڑ کر نا دیکھے،
جناچہ سحری کے وقت قوم لوط ؑ پر اللہ نے آسمان سے پتھروں اور آگ کی بارش کر دی ۔ اور قرآن میں اللہ نے فرمایا کہ ہم نے ان پر تہہ بر تہہ کنکریاں برسائیں اور پوری بستی کو نیچے سے اوپر کر دیا۔
آج جدید سائنس نے اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ جب یہ قوم زمین پر تھی اس وقت برج سنبلہ سے شہاب ثاقبوں کی بارش ہوئی تھی، وہ پتھروں کی بارش آگ کے بگولوں کی طرح اس قوم پر نازل ہوئی تھی۔ یہ اپنی دنیا میں مگن تھے ان کی ہڈیوں سے پتا چلتا ہے کہ انتہائی کرب ناک عذاب کی زد میں آگئے تھے۔
حضرت لوط ؑ کی بیوی نے اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کی اور مڑ کر پیچھے تباہ ہوتا شہر دیکھنے لگی۔ اور وہی پتھر کی ہو گئیں ۔۔۔ ان کی باقیات آج بھی بحیرہ مردار کے پاس وادی سدوم میں دیکھی جا سکتی ہیں ۔۔۔
اللہ ہمیں اپنے سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق دے اور عذاب الہی سے بچائے رکھے۔ جو یقینا ہمارے لیے بہت بھاری ہے..!!

میراجسم میری مرضی کہنے والو یہ دیکھو اللہ کا عذاب  ان قوموں نے بھی  اللہ کی نافرمانی کی تھی ان قوموں کو دیکھو اللہ تعالیٰ نے ان کا کیا حشر کیا تھا

Post a Comment

0 Comments