مُلکِ شام میں ایک بزُرگ تھے ان کے پاس
ایک شخص آیا اور عرض کی یا شیخ مجھے کوئی ورد یا کوئی عمل بتائیں کہ مجھے آقا کریم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار ہو جائے۔ بزُرگ نے کہا آج ایسا کرو رات کا کھانا
میرے گھر میں آکر کھانا ان شاء اللہ تمہیں
ایک ایسا نسخہ دوں گا جس سے تمہیں آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار ہو جائے
گا ۔
رات کے وقت شیخ صاحب نے کھانے کا اہتمام
کیا اور وہ شخص حاضر ہوا کھانا لایا جاتا ہے کھانا شروع ہوتا ہے کھانا کچھ ایسا ہوتا
ہےکہ اس میں بہت زیادہ نمک ڈال دیا جاتا ہے نمک بھی ڈال دیا جاتا ہے اور پانی بھی نہیں
دیاجاتا نمک اتنا زیادہ تھا اور پانی بھی نہیں دیا ۔
اب ادباً شیخ کےادب میں پانی بھی طلب نہیں کیا کھانا ختم
کرنے کے بعد اس شخص نے شیخ صاحب سے کہا شیخ صاحب آپ نے وعدہ فرمایا تھا میں ودر یا
عمل دو گا جس سے آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار نصیب ہو جائے گا وہ نسخہ
تو عطاء کریں شیخ صاحب نے کہا آج گھرجاو اور جاتے ہی سو جانا اور پانی نہیں پینا۔ اس
شخص نے کہا جی میں یہی عمل کرو ں گا
وہ گھر جاتا ہے اور جا کر بغیر پانی پیئےسو
جاتا ہے اور صبح اُُٹھ کرفجر کی نماز شیخ صاحب کے پیچھے ادا کرتا ہے اور شیخ صاحب سے
پوچھتا ہے آپ نے کہا تھا گھر جا کر پانی پیئے بنا سو جاو آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کا دیدار ہو گامیرے دل میں بہت حسرت ہے بہت تمنا ہے کہ کب آقا کریم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کا حسین و جمیل مُکھڑا نظر آئے گا
شیخ صاحب نے پوچھا کیا تو گھر جاتے ہی سو
گیا تھا ؟ پانی پیا تھا؟
اس نے کہا نہیں پانی نہیں پیا تھا
۔ شیخ
نے پوچھا بتاو خواب میں کیا دیکھا؟
اس نے کہا میں نے خواب میں کنویں دیکھے
دریا دیکھے سمندر دیکھے جس طرف آنکھ اُٹھائی پانی ہی پانی دیکھا۔
شیخ صاحب نے کہا بس یہی تیرا ورد ہے یہی
تیرا عمل ہے اگر تیرے دل میں پانی کی پیاس تھی پانی کی تڑپ تھی پانی کی سچی پیاس تھی
توحقیقت میں پانی کا طالب تھا تو چاہتا تھا مجھے پانی مل جائے اور رات کو پانی پینے
کی آرزو لے کرتیری آنکھیں بند ہوگئی تھیں اپ سوچ اگر پانی تیری سچی پیاس بجھانے کے
لیے تیری خواب میں آکر تجھے دیدار کروا سکتا ہے تو حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کے لال
آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیری تڑپ تری تمنا تیری آرزو دیکھ کر تجھے دیدار
سے مُشرف کیوں نہیں کرائیں گے
تو سچی تڑپ پیدا توکر تو آرزو پیدا تو کر تو سچی چاہت پیدا توکر تیرے اندر خواہش پیدا تو ہو تو تیرے اندر حقیقی
تمنائیں مچلیں تو سہی ویسے تیرے دل میں تمنا ہے. آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کے دیدار کا تمنائی بھی ہے آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آرزو مند بھی ہے تو
کبھی دل کی دنیا کو پاک کر کے دیکھ دل کی دینا کو صاف کرکے دیکھ ادھر تیری آنکھیں بند
ہوں گی ادھر کونین کےوالی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسین و جممیل مُکھڑا تمہارے سامنے
ہو گا پھر تیرے دل سے آواز آئے گی ۔
کچھ ایسا کردے میرے کردگار
آنکھوں میں
ہمیشہ نقش رہے روئے یار آنکھوں میں
اُنہیںؐ نہ دیکھا تو کس کام کی
ہیں یہ آنکھیں
کہ دیکھنے کی ہے سب بہار آنکھوں میں
0 Comments
Please do not enter any spam link in the comments box